رسائی کے لنکس

شمالی وزیرستان کے بے گھر قبائلیوں کا پشاور میں دھرنا


بے گھر ہونے والے قبائلی پشاور پریس کلب کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں 8 اکتوبر 2018
بے گھر ہونے والے قبائلی پشاور پریس کلب کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں 8 اکتوبر 2018

مظاہرین اپنے گھروں کو جلد از جلد واپسی کے علاوہ تباہ شدہ مکانات اور املاک کے معاوضوں کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔

شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد نے مطالبات کے منظوری کیلئے پشاور پریس کلب کے سامنے سوموار کی شام سے تین دن کیلئے احتجاجی دھرنا شروع کر دیا ہے۔

شمالی وزیرستان اور خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں اور اضلاع میں رہائش پذیر قبائلی گاڑیوں کے ذریعے پشاور پہنچے۔ ان قبائلیوں کا مطالبہ ہے کہ جون 2014 میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کاروائی ختم کر دی گئی تھی اور حکام کا دعوٰی ہے کہ تمام تر علاقے اب عسکریت پسندوں سے پاک کر دیے گئے ہے مگر ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی کرنے والے لوگ اب بھی دربدر ہیں۔

مظاہرین اپنے گھروں کو جلد از جلد واپسی کے علاوہ تباہ شدہ مکانات اور املاک کے معاوضوں کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔

شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سرکردہ قبائلی رہنما ملک غلام جو مظاہرین کی قیادت کرتے ہوئے گاڑیوں کے ایک جلوس میں پشاور پہنچے، اُنہوں نے وائس آف امریکہ کو اپنے مطالبات کے بارے میں بتایا کہ حکومت واپسی سے بچ جانے والے قبائلیوں کو جلد از جلد اپنے اپنے علاقوں کو واپس بھیجے اور خوست میں رہ جانے والے لوگوں کے واپسی کیلئے عملی اقدامات کیے جائیں۔

مظاہرے میں شریک ایک اور قبائلی رہنما وقاص خان نے کہا کہ ہمارا احتجاج تب تک جاری رہے گا جب تک ہمارے مطالبات نہیں مانے جاتے۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے ہمارے مطالبات نہیں مانے تو ہم اسلام آباد میں بھی دھرنا دیں گے۔

واپسی کے علاوہ مظاہرین تباہ ہونے والے مکانات اور املاک کے معاوضوں کی جلد از جلد ادائیگی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے ایف ڈی ایم اے کے ترجمان احسان داوڑ نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف فوجی کاروائی کے باعث نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کا سلسہ بتدریج جارہی ہے تاہم اُنہوں نے تصدیق کی کہ ابھی تک لگ بھگ 15 ہزار خاندانوں کی واپسی نہیں ہوئی ہے۔ ان میں سے صرف اٹھ سو کے لگ بھگ خاندانوں کا تعلق وادی تیراہ سے جبکہ باقی شمالی وزیر ستان سے ہیں۔

جون 2014 میں فوجی کاروائی کے نتیجے میں وزیرستان کے آٹھ ہزار سے زائد خاندانوں نے افغانستان کے ملحقہ صوبے خوست کی طرف نقل مکانی کی تھی۔ احسان داوڑ نے بتایا کہ افغانستان نقل مکانی کرنے والوں میں سے اب تک چھ ہزار خاندان واپس آ چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG