اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں شورش زدہ علاقوں سے بے گھر ہونے والے افراد کی واپسی اور بحالی کے لیے اس سال درکار 43 کروڑ 30 لاکھ ڈالر میں سے اب تک صرف 14 کروڑ ڈالر حاصل کیے جا سکے ہیں۔
اس میں حکومت پاکستان کی جانب سے عالمی ادارہ برائے خوراک کو لگ بھگ چھ کروڑ ڈالر مالیت کی گندم بھی شامل ہے۔
بے گھر افراد کی بحالی کے لیے رواں سال مزید 30 کروڑ 30 لاکھ ڈالر درکار ہیں۔
جنوری 2015ء میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی ہمدردی اور پاکستان میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والی ایک ٹیم نے بے گھر افراد کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک منصوبے کا اعلان کیا تھا، جس کے لیے 43 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی رقم کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی ہمدردی نے رواں ہفتے اسلام آباد میں ایک اجلاس کا اہتمام کیا تھا جس میں بین الاقوامی امدادی اداروں کو خیبر پختونخوا اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں میں بے گھر افراد کی واپسی کے عمل اور ان کی ضروریات کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔
واپسی کا عمل اس سال مارچ میں شروع ہوا جس کے تحت جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی کے بعض علاقوں میں اب تک ایک لاکھ 40 ہزار سے زائد بے گھر افراد اپنے آبائی علاقوں میں واپس جا چکے ہیں۔
اس اجلاس میں قبائلی علاقوں کے لیے آفات سے نمٹنے کے ادارے ’فاٹا ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی‘ کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا ’’یہ پہلا موقع ہے کہ حکومتِ پاکستان نے تین قبائلی ایجنسیوں میں ایک ساتھ واپسی کا عمل شروع کیا ہے۔‘‘
پاکستان نے امداد فراہم کرنے والے ممالک اور اداروں کو تاحال کیمپوں اور میزبان آبادیوں میں مقیم بے گھر افراد کی فوری ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنی امداد بڑھانے کی درخواست کی ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مالیات و محصولات کے چیئر مین عمر ایوب خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوششوں کو دیرپا بنانے کے لیے ضروری ہے کہ متاثرہ علاقوں کے لوگوں کی بحالی کو یقینی بنایا جائے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگرچہ حکومت اپنے دستیاب وسائل کو اس مقصد کے لیے استعمال کر رہی ہے لیکن اُن کے بقول پاکستان ایسے ترقی پزید ملک کے لیے تنہا اس صورت حال سے نمٹنا آسان نہیں ہے۔
رواں ہفتے پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار نے عالمی مالیاتی فنڈ ’آئی ایم ایف‘ کے وفد سے مذاکرات کے بعد کہا تھا کہ آپریشن ضربِ عضب اور اس سے بے گھر ہونے والے افراد کی دیکھ بھال کے لیے پاکستان نے 44 ارب روپے خرچ کیے ہیں جو بجٹ میں شامل نہیں تھے، جس سے ’آئی ایم ایف‘ کی طرف سے مقرر کیے گئے معاشی اہداف حاصل کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔
حالیہ برسوں میں ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور قدرتی آفات سے لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ہیں جن میں سے لاکھوں افراد تاحال اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکے۔
ایسی صورتحال میں بین الاقوامی امداد پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔ غیر ملکی سفیر خود بھی شمالی وزیرستان کا دورہ کر چکے ہیں اور کئی ایک نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ پاکستان کی مدد کریں گے تاہم بین الاقوامی سطح پر مختلف ترجیحات کی بنا پر پاکستان کے بے گھر افراد کے لیے مسلسل امداد کو یقینی بنانا مشکل رہا ہے۔