رسائی کے لنکس

اسٹیٹ بنک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر میں تشویشناک حد تک کمی


سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آئی ایم ایف سے قرضے کے معاہدے پر از سر نو جائزہ لینا چاہئے۔

اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے رواں ماہ جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً نو ارب ڈالر تک آگئے ہیں جس میں سے مرکزی بنک کے پاس صرف تین اعشاریہ چھ ارب ڈالر ہیں اور اس میں سے رواں ہفتے تقریباً 40 کروڑ ڈالر بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کو قرضے کی قسط کی مد میں ادا کئے گئے۔

سرکاری عہدیداروں اور ماہرین کے بقول اسٹیٹ بنک کے پاس اس وقت موجود زرمبادلہ کے ذخائر سے بمشکل ملک کی تین ہفتوں کی درآمدات کی ادائیگی کی جا سکتی ہے۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تشویش ناک صورتحال کی وجہ حکومت کی طرف سے ان کے بقول درست مالیاتی منصوبہ بندی کا نا ہونا ہے۔

سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آئی ایم ایف سے قرضے کے معاہدے پر از سر نو جائزہ لینا چاہئے۔

’’یہ چیزیں بڑی واضح تھیں لیکن بدقسمتی سے آئی ایم ایف پروگرام میں اس حوالے سے کچھ نا تھا کیونکہ یہ تھا ہی بیلنس آف پیمنٹ کی سپورٹ اور اس میں استحکام کے لیے تھا مگر دونوں چیزیں نہیں ہوئیں۔ تو اس سے سرمایہ کاری اور ایکسپورٹ بھی رک گئی۔‘‘

ملک کو دیوالیہ ہونے سے سے بچانے اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے نواز شریف حکومت نے حال ہی میں آئی ایم ایف سے 6 ارب 70 کروڑ ڈالر قرضے کا معاہدہ کیا ہے۔

وزارت خزانہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ زرمبادلہ میں کمی کی وجہ چند عالمی مالیاتی اداروں اور نجی کمپنیوں کی طرف سے فنڈز کے اجراء میں تاخیر ہے اور آئندہ ماہ کے اواخر تک صورتحال بہتر ہوجائے گی۔

اقتصادی امور کے ماہر اور وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے کے بارے میں کہتے ہیں۔

’’آئی ایم ایف بورڈ کو سخت ناراضگی تھی کہ پاکستان پروگرام لے کر بھاگ جاتا ہے اور پورا نہیں کرتا۔ پھر پچھلے پروگرام میں انہوں نے یک مشت بڑی رقم دی تھی مگر آپ نے اصلاحات نہیں کیں تو اس بار انہوں نے ایسا نا کیا مگر ہمارے لوگوں کو کہنا چاہیے تھا کہ اس سے نقصان ہوگا۔ مشکالات بڑھے گی۔‘‘

اشفاق حسن اسلام آباد کی معروف درسگاہ نیشنل یورنورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں شعبہ اقتصادیات کے سربراہ ہیں۔

انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ موجودہ صورتحال عارضی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں بھی زرمبادلہ کے ذخائر سے متعلق مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اس لیے حکومت کو فوراً تجارتی خسارے کو کم کرنے جیسے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔

’’کسی ملک کے مالیاتی معاملات امیدوں پر نہیں چلتے کہ آئے گا پیسہ، آرہا ہے پیسہ، لہذا ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ کب آئے گا؟ خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک۔ یہی سلسلہ چل رہا ہے۔‘‘

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں تجارتی خسارہ 6 ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور برآمدات میں صرف اعشاریہ 6 فیصد جبکہ درآمدات میں تقریباً سات فیصد اضافہ ہوا ہے۔

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی سربراہ نسرین جلیل کہتی ہیں۔

’’ایران کے جوہری پروگرام پر (عبوری) معاہدے کے بعد تیل کی قیمتیں اب کم ہوئی ہیں مگر اگر آپ کے سرے سے ڈالر ہی نہیں تو کہاں سے خرید پائیں گے۔ پھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب اسٹیٹ بنک کے پاس ڈالر نہیں ہوتے تو وہ خریدتا ہے تو اس سے ڈالر کی قدر پر فرق پڑتا ہے اور مہنگائی اضافہ ہوتا ہے۔‘‘

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اقتصادی بحالی کے لیے اقتصادی، مالیاتی اور توانائی کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنا ہوں گی جس سے ملک میں سرمایہ کاری بڑھے، ٹیکس وصولی کا نظام موثر ہو اور توانائی کی قلت پر قابو پایا جا سکے۔
XS
SM
MD
LG