رسائی کے لنکس

گرفتاری کے وقت کم عمری کا دعویٰ کرنے والے مجرم کو پھانسی


برطانیہ میں قائم قانونی مشاورت فراہم کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'رپریوو' نے پاکستانی حکومت سے عنصر اقبال کی پھانسی روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔

پاکستان میں منگل کی صبح سزائے موت کے اس مجرم کو پھانسی دے دی گئی جس کا کہنا تھا کہ وہ گرفتاری کے وقت 15 سال کا تھا اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے بھی اسی بنیاد پر اس کی سزائے موت ختم کرنے کے لیے مطالبہ کر رکھا تھا۔

عنصر اقبال کو پنجاب کے شہر سرگودھا کی جیل میں تختہ دار پر لٹکایا گیا اور پولیس حکام کے مطابق بعد ازاں لاش تدفین کے لیے ورثا کے حوالے کر دی گئی۔

عنصر کو پولیس نے 1994ء میں ایک پڑوسی کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور عدالت نے اسے 1996ء میں موت کی سزا سنائی تھی۔

مقتول کے لواحقین کا اصرار رہا کہ عنصر نے کرکٹ میچ کے ایک تنازع پر اپنے پڑوسی کو قتل کیا جب کہ مجرم کا کہنا تھا کہ پولیس نے مبینہ طور پر اس کے گھر پر دو بندوقیں رکھیں اور اسے جان بوجھ کر اس معاملے میں پھنسایا گیا۔

برطانیہ میں قائم قانونی مشاورت فراہم کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'رپریوو' نے پاکستانی حکومت سے عنصر اقبال کی پھانسی روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اپنے ایک بیان میں تنظیم کا کہنا تھا کہ "مقدمے کی مختلف عدالتوں میں سماعتوں کے دوران پیش کیے گئے دستاویزی شواہد سے پتا چلتا ہے کہ مبینہ جرم کے وقت وہ (عنصر اقبال) بچہ تھا، تاہم عدالتوں نے پولیس افسران کے اس استدلال کو (کہ وہ بیس سال سے زیادہ عمر کا ہے) فوقیت دی۔"

پاکستان کے نظام قانون و انصاف پر اس سے قبل بھی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں اور ایک عام تاثر یہی ہے کہ تفتیش کے فرسودہ طریقوں اور اکثر اوقات مبینہ طور پر تشدد کے ذریعے اقبال جرم کروا لیا جاتا ہے۔

گزشتہ سال دسمبر میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد حکومت نے پھانسیوں پر عائد چھ سالہ پابندی ختم کر دی تھی جس کے بعد اب تک لگ بھگ 239 مجرموں کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اس حکومتی فیصلے کو واپس لینے کے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں اور ان کے بقول اب تک جن لوگوں کو پھانسی پر چڑھایا گیا ان میں اکثریت دہشت گردی کی بجائے دیگر جرائم میں سزائے موت کے مرتکب مجرموں کی ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق دی گئی سزاؤں پر عملدرآمد ملک کو درپیش مخصوص حالات میں ناگزیر ہے اور حکام کے بقول سزائے موت پر عملدرآمد تمام تر عدالتی کارروائیاں مکمل ہونے کے بعد ہی کیا جا رہا ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ماہ ہی شفقت حسین نامی سزائے موت کے مجرم کو بھی پھانسی دی گئی تھی اور اس کے بارے میں بھی انسانی حقوق کی تنظیموں کو موقف تھا کہ واردات کے وقت مجرم نابالغ تھا۔

تاہم اس بنا پر متعدد بار موخر کی گئی پھانسی پر چار اگست کو عملدرآمد کیا گیا۔

پاکستان کے قانون کے مطابق نالبغ مجرموں کو پھانسی نہیں دی جا سکتی۔

XS
SM
MD
LG