پاکستان نے بھارت کے اس مجوزہ قانون پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے جس کے تحت جموں و کشمیر سمیت دیگر متنازع علاقوں کو نقشے میں بھارت کا حصہ نہ دکھائے جانے پر سزا اور جرمانہ عائد کرنے کا کہا گیا ہے۔
منگل کو پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان کے دفتر سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے صدر کے نام اپنی مستقل مندوب کے ذریعے خطوط ارسال کیے ہیں جن میں انھیں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا گیا ہے۔
بھارت نے حال ہی میں ایک مسودہ قانون تیار کیا ہے جسے وہ پارلیمان سے منظور کروانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اس مجوزہ قانون کے مطابق متنازع علاقوں کو نقشے میں بھارت کا حصہ نہ دکھانے والے شخص یا تنظیم کے خلاف قانونی کارروائی کر کے سات سال قید اور 100 کروڑ روپے تک جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔
بیان کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کے نقشے میں جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ دیکھایا جاتا رہا ہے جو کہ حقائق سے منافی اور غیرقانونی اقدام ہے۔
مزید برآں اس بل کی منظوری سے بھارت ایسے افراد یا تنظیموں پر جرمانہ عائد کر سکے گا جو جموں و کشمیر کو متنازع علاقہ ظاہر کریں گے جو کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق متنازع ہے۔
خط میں اقوام متحدہ سے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو پاسداری اور بھارت کو ایسے اقدام سے گریز کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔
بیان میں بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ پر زور دیا گیا کہ وہ جموں و کشمیر کے لوگوں سے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے عزم کو پورا کریں۔
معروف تجزیہ کار حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ،"پاکستان کی تشویش اس بنا پر ہے کہ اقوام متحدہ کے نقشے میں کمشیر کو ہندوستان کا حصہ نیں دکھایا جاتا ہے اب اس قسم کا قانون بنا کر ہندوستان مجبور کرے گا کہ یواین او کی جو دستاویزات ہندوستان میں تقسیم ہوں گی یا کئی اور استعمال ہوں گی اور ہندوستان میں بھی آ سکتی ہیں تو وہ ان کے خلاف وہ کارروائی کر سکتا ہے ۔ اسی لیے پاکستان نے اعتراض کیا ہے کہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مطابق ایک متنازع علاقہ ہے جبکہ ہندوستان کا آئین اس کو اس کا حصہ دکھاتا ہے اس وجہ سے پاکستان نے اعتراض کیا ہے"۔
کشمیر روز اول ہی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان متناع علاقہ ہے۔ اس کا ایک حصہ پاکستان اور ایک بھارت کے زیر انتظام ہے۔ اس علاقے کو منقسم کرنے والی عارضی حد بندی (لائن آف کنٹرول) پر فائربندی کی معاہدے کے باوجود حالیہ برسوں میں اکثر و بیشتر فائرنگ و گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا ہے جو دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے مابین تعلقات میں کشیدگی کا مزید باعث بنا ہے۔
دونوں ملک فائربندی معاہدے کی خلاف ورزی میں پہل کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔