رسائی کے لنکس

پاکستان فلم انڈسٹری آج بھی ان گنت مسائل سے دوچار


پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لیے اچھی بات یہ ہے کہ نوجوانوں کو پاکستانی فن اور ثقافت کو دوبارہ دُنیا بھر میں اُجاگر کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ (فائل فوٹو)
پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لیے اچھی بات یہ ہے کہ نوجوانوں کو پاکستانی فن اور ثقافت کو دوبارہ دُنیا بھر میں اُجاگر کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے مختلف کوششیں جاری ہیں لیکن مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کے حل ہونے کے لیے کسی وقت کا تعین بھی نہیں کیا جاسکتا۔

پاکستان فلم انڈسٹری کو درپیش مسائل پر ایک تفصیلی نظر ڈالنے کے لیے کراچی میں جمعہ کو امریکی قونصلیٹ جنرل کراچی اور آرٹس کونسل آف پاکستان کے تعاون سے ایک مذاکرہ ہوا جس کا موضوع تھا 'ہالی ووڈ اور پاکستانی فلم میکرز' تھا۔

پینل ڈسکشن میں ایلکس مَڈیگن، ماریہ ریکوِیل بوزی، سنیما مالک ندیم مانڈوی والا، ڈرامہ پروڈیوسر سلطانہ صدیقی، پروڈیوسر فضاء علی مرزا اور بدر اکرم نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

صدر آرٹس کونسل کراچی محمد احمد شاہ کا اُس موقع پر کہنا تھا کہ سن 60 اور 70 کی دہائی پاکستان فلم انڈسٹری کے عروج کا دور تھا۔ ہم انڈین فلم انڈسٹری کے مقابلے میں فلمیں بناتے تھے لیکن پھر آہستہ آہستہ انڈسڑی زوال پذیر ہوگئی، تاہم نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی فلم انڈسٹری کا احیا جاری ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ " یہ انڈسٹری کے لیے ایک اچھی بات یہ ہے کہ نوجوانوں کو پاکستانی فن اور ثقافت کو دوبارہ دُنیا بھر میں اُجاگر کرنے کا موقع مل رہا ہے۔

سنیما مالک اور فلم پروڈیوسر ندیم مانڈوی والا نے کہا کہ دُنیا بھر کے ممالک میں سنیما ہالز کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن پاکستان میں سینما کی تعداد کم ہے۔

ندیم مانڈوی والا کے بقول پاکستانی پروڈیوسرز کی مشکل یہ ہے کہ وہ سنیما مالکان سے توقعات رکھتے ہیں کہ وہ ان کی فلموں کو کامیاب کرانے میں کردار ادا کریں جبکہ دُنیا بھر میں فلموں کے میوزک رائٹس، ڈیجیٹل رائٹس اور ٹی وی ڈراموں کے رائٹس فروخت کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مختلف شعبوں میں مارکیٹنگ وقت کا تقاضا ہے جو بدقسمتی سے ہمارے ہاں نہیں ہو رہی۔ پاکستانی اور بالی ووڈ فلمیں ڈی وی ڈی پر فروخت ہوتی ہیں جبکہ اکثر فلمیں سنیما ہوتے ہوئے 24 گھنٹے میں کیبل اور ڈی وی ڈی پر آجاتی ہیں۔

پروڈیوسر سلطانہ صدیقی نے کہا کہ فلموں کا ریوائیول ہورہا ہے لیکن پروڈیوسر ذاتی کوششوں سے فلمیں بنا رہے ہیں، سرکاری سطح پر کوئی سپورٹ نہیں جبکہ ہم ڈرامے کی طرح فلموں کو بھی بین الاقوامی سطح پر ایک نئی شناخت دینا چاہتے ہیں۔

مذاکرے سے خطاب کرنے والی شخصیات
مذاکرے سے خطاب کرنے والی شخصیات

فلم 'نامعلوم افراد' اور 'ایکٹر ان لا' سمیت کئی دیگر فلموں کی پروڈیوسر فضا علی مرزا نے کہا کہ 15 سے 20 کروڑ روپے لگا کر فلم بنانے والے کو جن مسائل سے گزرنا پڑتا ہے اس کا احساس وہی کرتا ہے۔

اُن کے بقول سنیما اور ڈسٹری بیوٹرز انڈسٹری کے لوگ متحد ہیں وہ اپنی بات منوا لیتے ہیں لیکن پروڈیوسر کو بہت نقصان بھی اُٹھانا پڑتا ہے۔

فضا علی نے شکوہ کیا کہ پاکستان میں فلم اسکول نہیں ہیں، مختلف یونیورسٹیز میں فلم اور ڈرامہ میکنگ کی تعلیم دی جارہی ہے لیکن اسکرپٹ رائٹر کا فقدان ہے اور عملی طور پر فلم میکنگ کے طالب علموں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے فلم اسکول کی سہولت میسر نہیں۔

پاکستان فلم پروڈیوسر ایسوسی ایشن کے صدر بدر اکرم نے کہا کہ ملک میں ایک دور میں 800 سے زائد سنیما گھر تھے اب صرف سندھ اور پنجاب میں جدید اور قدیم سنیما گھر ہیں جن کی تعداد بہت کم ہے۔

بدر اکرم کا کہنا تھا کہ فلم انڈسٹری پر بحرانی دور 80 کی دہائی میں آیا جس میں فلم اور ڈرامہ انڈسٹری پر مختلف قسم کی پابندیاں لگی رہیں جس کے باعث 20 سال تک فلم انڈسٹری کو بحران کا سامنا رہا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مشرف دور میں آزادی ملی تو انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو فروغ حاصل ہوا۔ جدید سنیما اور فلم سازی کا آغاز ہوا اور اب سالانہ 18 سے 20 فلمیں بن رہی ہیں۔ ان فلموں کی نمائش بیرونِ ملک بھی کی جاتی ہے جس سے زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔

XS
SM
MD
LG