رسائی کے لنکس

بھارتی فلموں پر پابندی کے باوجود پاکستانی فلموں کا بزنس 'ٹھپ'


فلم ’لال کبوتر‘ کا پوسٹر
فلم ’لال کبوتر‘ کا پوسٹر

پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی کے بعد باکس آفس پر پاکستانی فلموں کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگیاہے۔ فلم بین، پروڈکشن ہاؤسز ،ڈسٹری بیوٹرز اور فنکارسب کا مطالبہ ہے کہ مقامی فلمیں زیادہ سے زیادہ بنیں اور جلد از جلد ریلیز ہوں خاص کر وہ فلمیں جو مہینوں سے ریلیز کی منتظر ہیں لیکن اس کے باوجود سنیما انڈسٹری کو ایک مرتبہ پر بقاکا مسئلہ درپیش ہے۔ فلمی کاروبار ٹھپ ہوگیا ہے اور سنیما ہالز میں پھر سے بے رونقی چھانے لگی ہے۔

اگرچہ ایک نہیں درجن سے زائد فلمیں ریلیز کی منتظر ہیں مگر کسی نہ کسی سبب ان کی ریلیز تاخیر کا شکار ہے۔ بھارتی فلموں پر پابندی کو مارچ میں ایک ماہ ہوجائے گا لیکن اب تک صرف تین فلمیں ’لال کبوتر ‘، ’پروجیکٹ غاذزی‘ اور ’شیردل ‘ ہی ایسی ہیں جن کی ریلیز اس ماہ متوقع ہے جبکہ اپریل میں ریلیز کے لئے دو فلموں ’جنون عشق‘ اور ’تم ہی تو ہو‘ کا نام سامنے آیا ہے۔

آیئے بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ان فلموں سے متعلق کچھ تفصیلات پر ایک نظر ڈال لی جائے :

لال کبوتر
ڈائریٹر کمال احمد کی فلم ’لال کبوتر‘22 مارچ کو ریلیز ہونے جارہی ہے ۔ اسے جیو فلمز کے بینر تلے ریلیز کیا جائے گا۔ فلم کا مرکزی خیال کراچی کے اسٹریٹ کرائمز ہیں۔ کراچی کے ایک حقیقی مسئلے کو اجاگر کرتی دو فلمیں اب تک ریلیز ہوچکی ہیں ’نامعلوم افراد ‘اور اس کا سیکوئل۔ دونوں ہی فلمیں باکس آف پر ریکارڈ توڑ رش کا باعث بنیں ، شاید موضوع کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ہی کراچی کے ایک اہم مسئلے پر یہ فلم بنی ہے۔پچھلی فلموں کی کامیابی کو نظر میں رکھتے ہوئے توقع کی جاسکتی ہے کہ ’لال کبوتر‘ بھی ہٹ ہوجائے گی ۔

جیو فلمز کے ایک عہدیدار محمد ناصر نے وائس آف امریکہ کو بتایا ’فلم کی کاسٹ میں ٹی وی ایکٹر اور ایکٹریس احمد علی اکبر اور منشا پاشا شامل ہیں۔ احمد علی اکبر کی یہ دوسری فلم ہے۔ اس سے قبل وہ ماہرہ خان اور شہریار منور کے ساتھ فلم’ہو من جہاں‘ کرچکے ہیں جبکہ فلم کی ہیروئن منشا پاشا ہیں جو اب تک بہت سے ہٹ ڈراموں میں کام کرچکی ہیں۔ فلمی پردے کی بات کریں تو وہ اب سے پہلے فلم ’چلے تھے ساتھ‘ میں بھی کام کر چکے ہیں۔ ’’لال کبوتر‘‘ ان کی دوسری فلم ہے۔‘

پروجیکٹ غازی
ڈائریکٹر نادر شاہ کی فلم ’پروجیکٹ غازی‘ بھی رواں ماہ ریلیز کی جا رہی ہے۔ شہریار منور، ہمایوں سعید، سائرہ شہروز، طلعت حسین اورعامر قریشی فلم کی کاسٹ کا حصہ ہیں۔ لڑاکا فوجی طیاروں کی اڑان اور کمالات اس کا خاص اور اہم حصہ ہیں۔

شیر دل
میکال ذوالفقار اور ارمینہ خان کی ’شیر دل‘ بھی مارچ میں ریلیز ہونے جا رہی ہے۔ میکال اس سے قبل فلم ’نہ بینڈ نہ باراتی‘ میں کام کرچکے ہیں ۔

مارچ میں تین فلموں کی ریلیز کے بعد چوتھی فلم ’جنون عشق‘ اپریل میں ریلیز ہو گی۔ فلم کے مرکزی کرداروں میں عدنان خان، عامر قریشی اورنیا چہرہ ماہی خان شامل ہیں۔ڈائریکٹر اور ایکٹریس سنگیتا کے مطابق فلم’’تم ہی تو ہو‘ کی ریلیز بھی اپریل میں ہی متوقع ہے۔

فلمی دنیا سے جڑے ماہرین کا خیال ہے کہ اتنی کم تعداد میں فلموں کی ریلیز بزنس پر گہرا اثر ڈالے گی۔ اس سے گراف مزید گرے گا ۔گرتے ہوئے بزنس کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ پاکستانی فلمیں ریلز کی جائیں۔

آل پاکستان ایگزیبیٹرزایسوسی ایشن کےچیئرپرسن زوریز لاشاری نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ’ پاکستانی پروڈیوسرز کے پاس سنہری موقع ہے کہ وہ اپنی فلمیں جلد ازجلد ریلیز کریں ۔ ایک عرصےسے انہیں یہ شکایت رہی ہے کہ بھارتی فلموں کے مقابلے میں ڈسٹری بیوٹرز مقامی فلموں کو ترجیح نہیں دیتے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ان کے پاس شکایت کا جواز نہیں رہ جائے گا لہذا وہ فلمیں ریلیز کریں۔ ‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا ’بھارتی فلموں کی موجودگی میں اگر600 شوز کی اجازت تھی تو اس میں سے آدھے سے کہیں زیادہ شوز بھارتی فلمیں لے اڑتی تھیں جبکہ پاکستانی فلموں کو ان کے مقابلے میں آدھے شوز بھی مشکل سے مل پاتے تھے جبکہ اگر یہ فلمیں ، بھارتی فلموں پر پابندی کے دوران ریلیز کردی جائیں توتمام شوز انہی کو مل سکیں گے لیکن ایسا ہونہیںرہا ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فلموں کی ڈیمانڈ ہونے کے باوجود سنیمامالکان، ڈسٹری بیوٹرز اور باقی لوگ ہاتھ پے ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ۔ سنیماہالز نقصان میں جارہے ہیں کیوں کہ ان کا ماہانہ یا یومیہ خرچہ کم نہیں ہوا مگر آمدنی رک گئی ہے۔اس خرچ میں بجلی کا بل ‘ملازمین کی تنخواہیں اور دیگر چیزوں اور ضرورتوں کا بل شامل ہے۔ ‘

زوریز لاشاری کے مطابق زیادہ تر فلمسازوں کو مالی مسائل کا سامنا ہے ۔ سرمایہ کم ہے یا ہے ہی نہیں تو فلم کیسے تیارہوگی ؟ ہوبھی گئی تو جلد ریلیز کے لئے پھر پیسے کی ضرورت ہوگی۔یہاں تو ادھر قرض لیکر اور بسااوقات اپنی قیمتی اشیا تک بیچ کر فلمیں بنائی جاتی ہیں ۔ ایسے میں فلم فلاپ ہوجائے تو سب کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے ۔ ماضی میں بہت سے لوگ اسی کم سرمایہ اور وسائل کے سبب یاتو گمنامی میں چلے گئے یا پھر تباہ حال ہوگئے۔

ایسے میں ہر فلمساز اور ادارہ یہی چاہتا ہے کہ اس کی فلم عید پر ریلیزہو تاکہ بکس آفس پر عوام کو لایا جاسکے۔بھارت ہو یا پاکستان تہواروں پر لوگ سنیماہالز کا زیادہ رخ کرتے ہیں ۔بھارت کے’ فلمی خانز‘ تک کی بڑے بجٹ والی فلمیں عید یا دیگر مذاہب کے بڑے تہواروں پر ریلیز ہوتی ہیں۔ فلم ان دنوں ہٹ ہوتو چاروں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہوتا ہے اور اگر فلم ناکام بھی رہے تو بھی اتنا پیسہ کمانے میں کامیاب ہوجاتی ہے کہ فلم بنانے کا خرچہ نکل آتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جو پاکستانی فلمیں ریلیز کے لئے تیار ہیں بھی تو وہ عید کی آمد کی منتظر ہیںجبکہ مارچ سے عید تک فلمی کاروبار سست روی کا شکار رہے گا جبکہ رمضان میں تو فلمیں اور سنیما ہالز ویران ہی ہواکرتے ہیں۔‘

وی او اے کے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ پیشگوئی نہیں کی جاسکتی کہ بھارتی فلمیں دوبارہ کتنے عرصے بعد پھر سے ریلیز ہونے لگیں گی۔ یہ دونوں ممالک کے تعلقات پر منحصر ہے ۔ تعلقات اچھے ہوں گے تو ہی فلمیں وہاں سے یہاں ریلز ہوسکیں گی۔ پھر حکومت کیا پالیسی اختیار کرے گی ابھی یہ بھی دیکھنا ہوگا۔ دونوں ممالک کے کشیدگی تعلقات کا سب سے برا اثر جس انڈسٹری پر پڑا ہے وہ سنیماانڈسٹری ہی تو ہے ۔ خدانہ خواستہ حالات ایسے ہی رہے تو پھر فلم انڈسٹری پر اس کے کیا اثرات ہوں گے اس کا اندازہ لگانامشکل نہیں ۔فی الحال تو اس سوال پر ایک بڑا سا سوالیہ نشان ثبت ہے۔ ‘

XS
SM
MD
LG