رسائی کے لنکس

پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے 'بہت قریب' پہنچ چکا ہے: وزیرِ خزانہ


 وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل (فائل فوٹو)
وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل (فائل فوٹو)

پاکستان کے وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط حاصل کرنے کے' بہت قریب' پہنچ چکی ہے۔

وائس آف امریکہ کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے درمیان مذاکرات مثبت سمت میں جاری ہیں اور کئی معاملات پر مکمل اتفاق ہو گیا ہے۔

دوسری جانب آئی ایم ایف کے پاکستان میں نمائندے ایستھر پیریز روئز نے بعض صحافیوں کو بتایا ہے کہ آئندہ سال کے بجٹ کے حوالے سے فریقین کے درمیان "اہم پیشرفت" ہوگئی ہے۔ آئی ایم ایف اسٹاف اور حکومتی افسران کے درمیان معاشی استحکام سے متعلق مذاکرات جاری ہیں۔ تاہم ان کی جانب سے بھی اس حوالے سے مزید معلومات سامنے نہیں آ سکی ہیں۔

ادھر معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے واضح اشارے مل رہے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان کو اب قرض کی نئی قسط ملنے کے امکانات کافی حد تک روشن ہوچکے ہیں۔ تاہم اس میں ابھی مزید وقت لگ سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے جواب کب آتا ہے، اس کے بعد ہی اس کا اثر اسٹاک مارکیٹ اور روپے کی قدر میں کسی حد تک بحالی کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔

دوسری جانب سرمایہ کاروں نے آج بھی محتاط انداز اپنایا اور اسٹاک مارکیٹ میں کاروبار کے اختتام پر 67 پوائنٹس کی کمی دیکھنے میں آئی۔

معاشی ماہر شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ اس وقت ساری نظریں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کی کامیابی پر لگی ہوئی ہیں اور وہاں سے اچھی خبر آنے کی صورت میں ہی سیاسی اور معاشی بے یقینی کی فضا دور ہو پائے گی۔ پاکستان کے غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر کم ہونے کی وجہ سے بھی گزشتہ کئی ہفتوں سے مارکیٹ سنبھل نہیں پارہی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ امید یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام بحال ہونے سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال اور مارکیٹ بہتر ردِعمل کا اظہار کرے گی۔

شہریار بٹ نے مزید بتایا کہ یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس مشن بھی پاکستان کے دورے پر ہے جہاں وہ مزدور یونینز سمیت کئی اسٹیک ہولڈرز سے ملاقات کرے گا اور پھر سال کے آخر تک اس رپورٹ کی اشاعت ممکن ہوسکے گی۔ یورپی یونین نے یہ طے کرنا ہے کہ آیا پاکستان کا یہ درجہ بحال رکھا جائے یا نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل کی برآمدات بڑھنے اور لارج اسکیل مینو فیکچرنگ کے شعبے میں بڑھوتری کے حوالے سے اچھی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ جب کہ تیل کی قیمتیں عالمی منڈی میں نیچے آنا بھی اچھی پیش رفت ہے۔ تاہم ان کے خیال میں پاکستانیوں کو فوری طور پر اس کا فائدہ ملنے کے امکانات کم ہیں۔ کیونکہ یکم جولائی سے حکومت پیٹرولیم مصنوعات پر آئی ایم ایف سے طے پانے والے معاہدے کے تحت لیوی لگانا چاہ رہی ہے۔

دوسری جانب انٹر بینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ بھی برقرار رہا اور امریکی ڈالر مزید 50 پیسے مزید مہنگا ہو گیا ہے۔

پاکستان میں مہنگائی: خریدار اور دکان دار سب پریشان
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:33 0:00


بعض دیگر معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے قسط کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے محاصل بڑھانے کا جو منصوبہ بنایا ہے اس کے تحت حکومت نے عمران خان حکومت کے برعکس 50 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ حکومت نے 30 روپے فی لیٹر سبسڈی عائد کی تھی۔ جب کہ اسی طرح گردشی قرضے کو کم کرنے کے لیے آٹھ روپے فی یونٹ بجلی مزید مہنگی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا۔

غیر ملکی زرِمبادلہ کے کم ذخائر کی وجہ سے خوردنی تیل سے لے کر کمپیوٹر سے منسلک مختلف آلات تک درآمد کرنے کی اجازت نہیں مل پا رہی ہے جس سے پاکستان کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات بڑھانے کے خواب کو شدید دھچکہ پہنچ سکتا ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف سے حالیہ مذاکرات کے بعد وہ تنخواہ دار طبقہ جو 12 لاکھ روپے تک سالانہ کماتا تھا اسے دی جانے والی ٹیکس چھوٹ اب واپس لے لی جائے گی۔

یہ بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری کمیٹی کا ایمرجنسی اجلاس بُلا کر شرح سود میں مزید اضافہ کر دیا جائے جو پہلے ہی 13.75 فی صد پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو کاروبار مزید سکڑے گا۔ مزید لوگ بے روزگار ہوں گے۔ اور نتیجتاً ملکی معیشت کی ترقی کی رفتار بمشکل دو سے تین فی صد رہنے کی توقع ہے۔

ادھر سابق وزیرِ خزانہ شوکت ترین کے خیال میں جولائی کے اواخر تک رقم ملنے کی توقع ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت کے معاملات طے ہونے میں مزید وقت لگ سکتا ہے کیونکہ ابھی حکومت کو تو آئی ایم ایف کی جانب سے میمورنڈم آف انڈراسٹینڈنگ ہی بھیجا نہیں گیا جس کا پاکستانی حکام نے جائزہ لینا ہوتا ہے۔ اور اس کے بعد تیکنیکی ایگریمنٹ سائن ہونے کے بعد اسے فنڈ کے بورڈ کے پاس حتمی منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

وفاقی وزیر خزانہ نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ چینی بینکوں کے ایک کنسور شیم نے پاکستان کو 2.3 ارب ڈالرز قرضہ کی سہولت دینے کا معاہدہ کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ رقم ایک سے دو روز میں پاکستان کومل جائے گی۔

XS
SM
MD
LG