رسائی کے لنکس

چھ ماہ بعد بھی متاثرین سیلاب کے زخم ہرے ہیں


چھ ماہ بعد بھی متاثرین سیلاب کے زخم ہرے ہیں
چھ ماہ بعد بھی متاثرین سیلاب کے زخم ہرے ہیں

وقت کا کبھی نہ رکنے والا پہیہ بڑی تیزی سے گھوم گیا اور دیکھتے دیکھتے سیلاب کوگزرے چھ ماہ مکمل ہوگئے، لیکن متاثرین کے زخم ابھی تک ہرے ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے سیلاب متاثرین کی ایک بڑی تعداد اب بھی اپنے گھروں کو واپس جانے کا خواب آنکھوں میں سجائے اچھے وقت کی منتظر ہے۔

صوبہ سندھ میں 188 مقامات ایسے ہیں جہاں اب بھی سیلاب متاثرین کے کیمپ آباد ہیں۔ ان کیمپوں میں ایک لاکھ 88 ہزار افراد واپسی کی راہ تک رہے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں اگرچہ صرف 16 کیمپ باقی بچے ہیں مگر ان میں 13 ہزار متاثرین اپنے آبائی علاقوں کو واپسی کے منتظر ہیں۔ بلوچستان میں سیلاب زدگان کی عارضی قیام گاہ کے لئے جتنے بھی کیمپ لگائے گئے تھے ان میں سے 240 کیمپ چھ ماہ گزرجانے کے باوجود 'عارضی' ہیں ۔ ان میں ایک لاکھ 66 ہزار افراد مقیم ہیں جو جلد از جلد اپنے اپنے گھروں کو آباد دیکھنے کے منتظر ہیں۔ مگر ۔۔۔ ان کا انتظار شاید ابھی اور طویل ہوگا کیوں کہ بیشترخاندانوں کے پاس اپنا گھر تعمیر کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ اکثر کے پاس تو کرائے کے بھی پیسے نہیں پھر بھلا وہ گھروں کو تعمیر کہاں کرسکیں گے ۔

متاثرین کو شکایت ہے کہ حکومت ان کی بحالی پر کوئی توجہ نہیں دے رہی اور صرف چند ایک تنظیمیں اور ادارے ہی اان کی خبرگیری کررہے ہیں۔ ان میں سے ایک اقوام متحدہ کا ادارہ یو این ایچ سی آر بھی ہے جونہ صرف بے گھر افراد کی اپنے اپنے علاقوں کو واپسی میں مدد دے رہا ہے بلکہ ان کے تباہ شدہ مکانات کی تعمیر نو کے لئے بھی کوشاں ہے۔

جان محمد کو بھی اب صرف اقوام متحدہ کے ادارے کا ہی آسرا ہے۔ جان محمد صوبہ بلوچستان کے ایک چھوٹے سے گاوٴں کٹبر محلہ کا رہنے والا ہے ۔ گزشتہ سال اگست میں اس کا گاوٴں سیلاب میں بہہ گیا تھا۔ یہ گاوٴں ضلع جعفرآباد میں آتا ہے جو سیلاب سے بری طرح متاثر ہونے والے اضلاع میں سے ایک ہے ۔ جعفرآباد کے 851 دیہات زیر آب آگئے تھے اور ان میں موجود 16 ہزار گھر تباہ ہوگئے تھے۔

16 سالہ جان محمد نومبر میں اپنے خاندان کے ساتھ دوبارہ اپنے آبائی گاوٴں چلا آیا۔ اس کا پورا گاوٴں گدلے پانی سے بھرا تھا اور کسی گہرے سمندر کا منظر پیش کررہا تھا۔ گھر کی کچھ چیزیں پانی میں بہہ گئی تھیں تو کچھ کا پتہ ہی نہ لگ سکا۔ سب کچھ تتر بتر ہوگیا تھا۔

جیسے تیسے کرکے جان محمد اور اس کے کچھ رشتے داروں نے مل کر گھٹنوں گھٹنوں پانی میں کھڑے ہوکر اینٹوں کی چار دیواری کھڑی کی تاکہ گھر والوں کو سر چھپانے کا آسرا میسر آسکے ۔ انہیں توقع ہے کہ آنے والے مہینوں میں انہیں یو این ایچ سی آر کی جانب سے چھت بنانے کا سامان، دروازے اور کھڑکیاں مل جائیں گی جسے وہ اپنا گھر مکمل کرسکیں گے۔

اقوام متحدہ شیلٹر پروگرام کے تحت سیلاب میں بے گھر ہوجانے والے افراد کو گھر بنانے کا میٹریل فراہم کررہی ہے ۔ ادارے تباہ ہوجانے والے 1600 مکانوں کی تعمیر نو کا ارادہ رکھتا ہے۔

مشرقی بلوچستان کے قصبوں اور دیہاتوں میں زندگی کی رونقیں رفتہ رفتہ لوٹ رہی ہیں ۔ پانی میں ڈوب جانے والی دکانیں اور بازار دوبارہ کھلنے شروع ہوگئے ہیں ۔ جعفرآباد اور نصیر آباد میں تباہ شدہ مکانوں کی دوبارہ تعمیر ہونے لگی ہے۔ اگست میں کٹبر محلے میں، جب سیلابی پانی داخل ہوا تووہاں 400 خاندان اورتقریبا ًتین ہزار افراد آباد تھے ۔ ان میں سے نوے فیصد کے لگ بھگ واپس آگئے ہیں اور انہوں اپنے گھر دوبارہ بنانا شروع کردیئے ہیں۔

سیلاب متاثرین کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کئی خاندان ابھی تک اپنی اراضی کا کلیم داخل نہیں کرسکے ہیں کیوں کہ ان کے پاس کوئی دستاویزی ثبوت بھی باقی نہیں رہا۔ اسی وجہ سے بہت سےمتاثرین ابھی تک امدا سے بھی محروم ہیں ۔ کئی خاندان ایسے ہیں جن کے پاس جسم اور روح کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے روزگار کا کوئی وسیلہ باقی نہیں رہا۔ پانچ بچوں کی بیوہ ماں راشدہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اس کا گھر بھی محلہ کٹبر میں ہی تھا جسے سیلاب بہا کر لے گیا۔ یو این ایچ سی آربلوچستان میں ایسے ہی متاثرین کی مدد کے لئے ایک کمرے پر مشتمل پانچ سو شیلٹرز بنارہی ہے ۔

XS
SM
MD
LG