وزیراعظم نواز شریف نے ہفتہ کو اپنی حکومت کی خارجہ پالیسی سے متعلق چیلنجوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا سامنا ہے جس کے ہوتے ہوئے ملک کی ترقی و خوشحالی ممکن نہیں۔
چند اہم وزرا اور مشیروں کے علاوہ بری فوج اور افواج پاکستان کے خفیہ ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے سربراہان کی موجودگی میں وزیراعظم کا قومی سلامتی کانفرنس کے اجلاس سے خطاب میں کہنا تھا کہ ماسوائے چین کے پاکستان کے اپنے کسی بھی ہمسایہ ملک سے تعلقات ایسے نہیں جن پر فخر کیا جا سکے۔
رواں سال کے اواخر میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد خطے کی سلامتی کو درپیش ممکنہ خطرات کے تناظر میں ان کا کہنا تھا کہ کابل سے تعلقات وقت کی ضرورت ہے۔
’’افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات اتنے عمدہ نہیں ہیں۔ اللہ کرے کہ جو نہیں لیڈر شپ آئی ہے ان سے اچھا ایک تعلقات قائم ہوں اور اس کی بنیاد پہلے دن سے رکھنا بہت ضروری ہے۔جب وقت گزر جاتا ہے تو حالات اس سطح پر واپس نہیں آتے۔‘‘
نواز شریف جو کہ وزیر خارجہ کا عہدہ بھی رکھتے ہیں، کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب اسلام آباد اور کابل کے درمیان سرحد کے دونوں جانب عسکریت پسندوں کی کارروائیوں سے متعلق حالیہ دنوں میں سخت بیانات کا تبادلہ کیا جاتا رہا ہے۔
دونوں حکومتیں ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتی ہیں کہ وہ اپنی سرزمین پر شدت پسندوں کے خلاف موثر کارروائیاں اور سرحد پار حملے روکنے میں موثر اقدامات نہیں کر رہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اس بیان سے بظاہر یہ اشارے ملتے ہیں کہ حکومت کو خارجہ پالیسی کے حوالے سے دشواریوں کا سامنا ہے۔
خارجہ و سلامتی کے اُمور کے ماہر پروفیسر حسن عسکری کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا۔
’’جب حقانی گروپ متحرک تھا تو افغانستان والے کہتے تھے، تو ہم نہیں سنتے تھے، اب افغانستان کو پاکستان شکایت کرتا ہے کیونکہ ملا فضل اللہ وہاں ہے۔ پہلے فوج کے ساتھ بیٹھ کر انہیں خارجہ پالیسی کے خطوط پر متفق ہونا پڑے گا تو پھر اس پالیسی کو لے کر چلیں گے تو شاید مسائل پیدا نا ہوں۔‘‘
وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز نے حال ہی میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ اسلام آباد و کابل کو اپنی اپنی سرزمین پر عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کرنے کے ساتھ ساتھ سرحد پار حملوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیئے۔