رسائی کے لنکس

دہشت گردی کے نئے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھجوانے کی منظوری


حکومت نے دو درجن سے زائد دہشت گردی کے نئے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کی منظوری دے دی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ مارچ میں فوجی عدالتوں کے قیام کی مدت میں توسیع کے بعد سے ان میں وفاق کی طرف سے کوئی بھی مقدمہ ان عدالتوں میں نہیں بھیجا گیا تھا اور اسی بابت فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی پیش رفت معلوم کرنے کے لیے خط ارسال کیا تھا۔

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کے مطابق حکومت نے دہشت گردی کے 29 نئے مقدمات ان عدالتوں میں بھجوانے کی منظوری دے دی ہے جب کہ مزید 80 مقدمات کابینہ کے آئندہ اجلاس میں منظور کے بعد فوجی عدالتوں کو بھجوا دیے جائیں گے۔

نجی ٹی وی چینل 'جیو نیوز' کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ 80 مقدمات بھجوانے کے بعد ان کی وزارت کے پاس کوئی بھی اس نوعیت کا مقدمہ زیر التوا نہیں رہے گا۔

جنوری 2015ء میں آئین میں ترمیم کر کے ملک میں دہشت گردی کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کی منظوری دی گئی تھی جس کے بعد غیر فوجی ملزمان کے مقدمات سننے کے لیے 12 خصوصی فوجی عدالتیں دو سال کی مدت کے لیے قائم کی گئیں۔

رواں سال ان کی مدت ختم ہوگئی تھی اور اس دوران ان عدالتوں میں ڈھائی سو سے زائد مقدمات سنے گئے اور درجنوں میں مجرموں کو سزائے موت سمیت مختلف سزائیں سنائی گئیں۔

انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیمیں ان فوجی عدالتوں کی کارروائی میں شفافیت سے متعلق تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان کی مخالفت کرتی آئی ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی رکن نسرین اظہر نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک کے عدالتی نظام سے ہی انصاف ملنا چاہیے کیونکہ فوجی عدالتوں کی کارروائی کے بارے میں کچھ واضح نہیں ہوتا کہ آیا س میں انصاف کے تقاضے پورے ہو بھی رہے ہیں یا نہیں۔

"ان عدالتوں میں جو ہمیں پتا ہے کہ ملزمان کو وکیل نہیں دیا جاتا تو یہ غلط بات ہے، اگر ان میں مقدمات چلانے ہیں تو اس میں شفافیت ہونی چاہیے۔"

تاہم حکومت اور فوج دونوں ہی ایسے تحفظات کو یہ کہہ کر مسترد کرتی ہیں کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے دوران ملزمان کو اپنی مرضی کا وکیل رکھنے اور پھر سزا کے خلاف اپیل کرنے کا مکمل حق حاصل ہوتا ہے۔

حکام کے بقول ملک کو درپیش مخصوص حالات میں یہ فوجی عدالتیں ضروری ہیں۔

ناقدین اس امر کے پیش نظر ملک کے نظام قانون و انصاف میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ بھی کرتے آ رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG