رسائی کے لنکس

سعودی عرب ایران تعلقات بحالی؛ ’یہ عمل مسلم امہ کے لیے باعثِ تقویت ثابت ہو گا‘


وزیرِ اعظم عمران خان نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات کے بیان پر کہا ہے کہ ایران ہمارا پڑوسی ملک اور سعودی عرب قریبی دوست ہے۔ (فائل فوٹو)
وزیرِ اعظم عمران خان نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات کے بیان پر کہا ہے کہ ایران ہمارا پڑوسی ملک اور سعودی عرب قریبی دوست ہے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے سعودی عرب کے ایران کے ساتھ امن کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عمل مسلم امہ کے لیے باعث تقویت ثابت ہوگا۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ سعودی اور عرب ایران کے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ریاض تہران کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔

مشرق وسطیٰ کے دو مبینہ حریف ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کے اشارے ایسے وقت میں مل رہے ہیں جب امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کی ہے جس پر تہران نے 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر دستخط کیے تھے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات کے بیان پر کہا ہے کہ ایران ہمارا پڑوسی ملک اور سعودی عرب قریبی دوست ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان امن کی جانب یہ قدم امتِ مسلمہ کے لیے باعثِ تقویت ہو گا۔

مبصرین سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں بہتری کو خطے اور مسلم دنیا کے تناظر میں بڑی پیش رفت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

اس سے قبل سعودی عرب اور ایران کے درمیان پانچ سال تک تعلقات منقطع رہنے کے بعد مراسم میں بہتری لانے کے لیے براہِ راست بات چیت کا آغاز ہوا تھا۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے بھی سعودی عرب کے ایران کے ساتھ مفاہمت کے اقدام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد کے تہران اور ریاض دونوں سے برادرانہ تعلقات ہیں۔

ہفتہ وار بریفنگ میں ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ محاذ آرائی سے بچاؤ پر زور دیا ہے۔ اختلاف کو تناؤ میں بدلنے کی بجائے سیاسی و سفارتی طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔

ترجمان نے امید ظاہر کی کہ محمد بن سلمان کا اعلان کردہ امن عمل مسلم امہ کے اتحاد کا باعث بنے گا۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ آنے کے بعد بدلتی عالمی صورتِ حال کے تناظر میں سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے سے بات چیت پر مجبور ہوئے ہیں۔

سابق سفارت کار کار نجم الثاقب کہتے ہیں کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بہتری پاکستان، مشرق وسطیٰ اور مسلم اُمہ کے مفاد میں ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس وقت خطے میں خفیہ مذاکرات کی کافی باز گشت ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جب کہ ایران اور سعودی عرب میں بھی بات چیت کی خبریں زیرِ گردش ہیں اور نتیجتاً کچھ اقدامات بھی سامنے آ رہے ہیں۔

نجم الثاقب نے کہا کہ محمد بن سلمان کا ایران سے اچھے تعلقات چاہنے کا بیان پورے خطے کے لیے بڑی خوش خبری ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ سعودی ولی عہد نے یہ نہیں کہا کہ مسائل حل ہو گئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ 2018 میں یہی محمد بن سلمان آیت اللہ خامنہ ای کو ہٹلر کہتے ہیں اور اب 2021 میں تعلقات میں بہتری کی خواہش کا بیان واضح کرتا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات واقعی بہتر ہو رہے ہیں۔

نجم الثاقب نے کہا کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان مئی کے دوسرے ہفتے میں دو روزہ دورے پر ریاض جا رہے ہیں۔ جہاں خطے کی صورتِ حال میں ایران سعودی عرب تعلقات پر بھی گفتگو ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے مفادات دونوں ملکوں کے بہتر تعلقات سے وابستہ ہیں۔ لہٰذا اسلام آباد کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ وہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کے اثرات پوری مسلم دنیا پر پڑتے ہیں اور ان کی آپس کی کشیدگی اسلامی تعاون تنظیم کی فعالیت میں ایک رکاوٹ بھی رہی ہے۔

جنوری 2016 میں ممتاز شیعہ عالم آیت اللہ شیخ نمر النمر کی پھانسی کے بعد مظاہرین کے ایک گروپ نے تہران میں سعودی سفارت خانے کی عمارت کو نذر آتش کر دیا تھا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی عروج پر چلی گئی تھی۔

سفارتی تعلقات منقطع ہونے کے بعد سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے پر خطے کو غیر مستحکم کرنے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بھی بہتری کے واضح اشارے مل رہے ہیں۔ دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے اس ماحول میں وزیرِ اعظم عمران خان مئی کے دوسرے ہفتے میں سعودی عرب کے سرکاری دورے پر جا رہے ہیں۔

سعودی عرب یا ایران کی پاکستان میں کوئی مداخلت نہیں: طاہر اشرفی
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:43 0:00

وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے امور مشرق وسطیٰ حافظ طاہر محمود اشرفی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تصدیق کی کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی دعوت پر رمضان کے آخری ہفتے میں ریاض جا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ عمران خان اپنے سعودی عرب کے دورے کے دوران دوطرفہ تعلقات، خطے کی مجموعی سیاسی صورتِ حال اور اسلاموفوبیا کے معاملے پر گفتگو کریں گے۔

طاہر اشرفی نے کہا کہ پاکستان نے اسلامی ممالک کے ساتھ چھ سال سے تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری کو دور کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، ترکی اور ایران اسلاموفوبیا پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

خیال رہے کہ تنازع کشمیر کے معاملے پر سعودی عرب اور بعض خلیجی ممالک کی جانب سے پاکستان کے مؤقف کی کھل کر حمایت نہ کرنے پر وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔

عمران خان کی حکومت نے 2018 میں اقتدار سنبھالتے ہی سعودی عرب سے تین ارب ڈالر قرض لیا تھا۔ تاہم گزشتہ سال سعودی عرب نے اس رقم کی واپسی کا تقاضا کیا تھا۔

پاکستان نے چین کی مدد سے گزشتہ سال ایک ارب ڈالرز کی رقم ادا کر دی تھی جب کہ باقی ماندہ رقم بھی جلد لوٹانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

XS
SM
MD
LG