رسائی کے لنکس

'جوہری تصادم سے بچنے کے لیے عالمی طاقتیں کردار ادا کریں'


بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیکورٹی اہل کار بھارتی جنگی طیارے کی آگ بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، جسے پاکستانی طیاروں نے مار گرایا تھا۔ 27 فروری 2019
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیکورٹی اہل کار بھارتی جنگی طیارے کی آگ بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، جسے پاکستانی طیاروں نے مار گرایا تھا۔ 27 فروری 2019

جنوبی ایشیا کی دو جوہری قوتوں بھارت اور پاکستان کے درمیان تصادم ساری دنیا کے لئے پریشانی کا سبب ہے اور یہاں امریکہ میں ماہرین کا خیال ہے کہ اس تصادم کو طول پکڑنے سے روکنے اور کسی جوہری تصادم سے بچنے کے لئے عالمی قوتوں کو اپنا بھرپور اور فوری کردار اد کرنا چاہئے

امریکہ میں فارن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی نائب صدر ایلان برمن نے وائس آف امریکہ اردو سروس کے قمر عباس جعفری کو بتایا کہ جنگ میں وسعت کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کے لئے یہ انتہائی اہم ہے کہ وہ خاص طور پر کشیدگی میں کمی لانے کے لیے بھارت اور پاکستان پر یہ دباؤ ڈالیں کہ جنگ مزید نہ پھیلے۔ کیونکہ یہ کسی کی طرفداری کرنے سے زیادہ خطے کی سلامتی اور سیکورٹی کا مسئلہ ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں امریکہ کی طویل المدت پالیسی یہ ہو گی کہ بھارت کے ساتھ زیادہ رابطے میں رہا جائے اور پاکستان کی حمایت یافتہ دہشت گردی کے متعلق اس کی جائز تشویش کو سمجھا جائے۔

امریکہ کے انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے معید یوسف کا کہنا تھا کہ جہاں جوہری ہتھیار ہوں اور فریقین کے درمیان عدم اعتماد بھی ہو تو خطرہ تو رہے گا۔

انہوں کہا کہ گزشتہ دنوں اندازی کی ایک بڑی غلطی ہمارے سامنے آئی ہے۔ہندوستان نے جو حملہ کیا تھا وہ اس لیے نہیں تھا کہ پاکستان جواب دے۔ بلکہ اس نے بڑی سوچ بچار کے بعد اپنی طرف سے ایسا حملہ کیا تھا کہ جس میں ایک جانب تو وہ اپنے عوام کو یہ بتا سکیں کہ انہوں نے پاکستان کو منہ توڑ جواب دے دیا اور دوسری جانب پاکستان کو بھی ایسا کوئی نقصان نہ پہنچے کہ وہ یہ محسوس کرے کہ اسے جواب دینا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں پاکستان جواب دینا بھی نہیں چاہتا تھا لیکن اس پر بھی اندرونی دباؤ بڑھ گیا اور اسے کارروائی کرنی پڑی۔اب مودی صاحب خود کو خراب پوزیشن میں دیکھ رہے ہوں گے۔ کیونکہ اگر سیاسی نقطہ نظر سے اسے دیکھا جائے تو مودی صاحب کی صورت یہ ہے کہ اگر وہ جواب نہ دیں تو یہ ان کے لئے سیاسی موت کے مترادف ہو گا۔ اور اپوزیشن ان پر چڑھ دوڑے گی۔ اور اس وقت ہندوستان میں یہ بات نہیں ہو رہی ہو گی کہ جواب دینا ہے یا نہیں بلکہ یہ بات ہو رہی ہو گی کہ کس طرح جواب دیناہے۔

انہوں کہا ہندوستان اور پاکستان دونوں کے پاس رابطے کا کوئی براہ راست چینل نہیں ہے اور ماضی میں بھی جب ان ملکوں کے درمیان تلخیاں ہوئی ہیں تو امریکہ۔ چین اور دوسری بڑی قوتوں نے مدد کی ہے۔ لیکن اس بار یہ صورت نظر نہیں آ رہی ہے اور امریکہ کی توجہ خاص طور پر دوسرے عالمی امور پر مرکوز ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت یہ بات ہو رہی ہے کہ دنیا کے یقینی جوہری فلیش پوائنٹ کے بارے میں جہاں جنگ دنوں میں نہیں لمحوں میں شدت اختیار کر سکتی ہے تو بڑی طاقتوں کو مداخلت کرنی پڑے گی۔ اور اس معاملے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے۔

مزید تفصیلات کے لیے اس آڈیو لنک پر کلک کریں۔

please wait

No media source currently available

0:00 0:05:12 0:00

XS
SM
MD
LG