رسائی کے لنکس

نظریاتی کونسل کے بیانات ’خواتین پر تشدد میں اضافے کا سبب بنے‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سینیٹ کی کمیٹی کی سربراہ نسرین جلیل نے مطالبہ کیا کہ غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں معافی کا سلسلہ ختم کرتے ہوئے ملزمان کی سزاؤں کو یقینی بنایا جائے۔

پاکستان کے ایوان بالا "سینیٹ" کی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے خواتین سے متعلق قانونی سفارشات اور بعض متنازع بیانات سامنے آنے کے بعد ملک میں خواتین کے خلاف تشدد میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور کونسل کی قانونی حیثیت وضع کرنے کے لیے کمیٹی نے حکومت سے استفسار کیا ہے۔

ملکی قوانین کو اسلام کے مطابق بنانے کے لیے قائم کے گئے مشاورتی ادارہ "اسلامی نظریاتی کونسل" کی طرف حالیہ مہینوں میں کئی ایسی سفارشات سامنے آچکی ہیں جن پر سیاسی و سماجی حلقوں کی طرف سے کڑی تنقید کی گئی جب کہ گزشتہ ماہ ہی کونسل نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک مسودہ بھی تیار کیا جس میں تادیب کے لیے شوہر کو اپنی بیوی پر ہلکا پھلکا تشدد کرنے کی اجازت ہونے کا کہا گیا۔

سینیٹ کی کمیٹی کی سربراہ نسرین جلیل نے مطالبہ کیا کہ غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں معافی کا سلسلہ ختم کرتے ہوئے ملزمان کی سزاؤں کو یقینی بنایا جائے۔

ایسے واقعات میں عموماً گھر کا کوئی فرد ملزم کو معاف کر دیتا ہے اور اس طرح سے وہ سخت سزا سے بچ جاتا ہے۔ ان کے بقول ایسے مقدمات میں ریاست کو مدعی بننا چاہیے۔

منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں نسرین جلیل کا کہنا تھا کہ کونسل کی سفارشات کے بعد سے نہ صرف خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا بلکہ اس میں شدت بھی دیکھنے میں آئی ہے۔

"ہم نے سفارشات (حکومت کو) بھیجی ہیں، انھوں (اسلامی نظریاتی کونسل) نے جو باتیں کیں اس کی وجہ سے ایک عام آدمی کو بھی یہ خیال ہوا کہ عورتیں تیسرے درجے کی شہری ہیں اور ان پر جتنا تشدد کیا جائے وہ جائز ہے، پھر دوسری بات جو ہوئی ہم نے دیکھا نہ صرف واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے بلکہ اس کی شدت میں فرق آیا ہے۔".

کمیٹی کی سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ حکومت سے یہ پوچھا گیا کہ ہے کہ اس کونسل کی مزید ضرورت ہے یا نہیں۔

"پارلیمنٹ اس بات کو طے کرے کہ اس کونسل کی ضرورت ہے یا نہیں۔۔۔اگر آئین میں اس کا کردار اور نہیں تو پھر پارلیمنٹ کو ہی دیکھنا ہوگا کہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ عدلیہ موجود ہے جو تشریح کرتی ہے تو میں نہیں سمجھتی کہ اس کی ضرورت پیش آئے گی۔"

تاہم معروف عالم دین اور حال میں کونسل کی رکنیت سے سبکدوش ہونے والے حافظ طاہر اشرفی اسلامی نظریاتی کونسل سے متعلق سینیٹ کی کمیٹی کے موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "میڈیا آزاد ہے اور اس پر یہ واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جب کہ اب بھی بہت سے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے تو عورتوں پر تشدد تو بہت سے قبائلی روایات ہیں جن کی وجہ سے عورت پر ظلم ہوتا ہے میں نہیں سمجھتا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی کسی بات سے اس میں اضافہ ہوا۔"

ان کا کہنا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے اور اگر پارلیمنٹ چاہے تو اس کے بارے کوئی فیصلہ کر سکتی ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے حکومت کو قانون سازی سے متعلق سفارشات بھیجی جاتی ہیں لیکن آئینی طور پر حکومت ان پر عملدرآمد کے لیے پابند نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG