رسائی کے لنکس

جنگلاتی رقبے میں ہر سال 66 ہزارایکڑکمی


جنگلاتی رقبے میں ہر سال 66 ہزارایکڑکمی
جنگلاتی رقبے میں ہر سال 66 ہزارایکڑکمی

وفاقی وزیر ماحولیات حمید اللہ جان آفریدی نے بتایا ہے کہ عالمی حدت کے تناظر میں آئندہ ممکنہ سیلاب کی تباہی سے بچنے کے لیے حکومت نے ایک نئی پالیسی ترتیب دے دی ہے جس کا مقصد نہ صرف جنگلات کے غیر قانونی کٹاؤ کو روکنا ہے بلکہ جنگلاتی رقبے میں دس لاکھ ہیکٹر تک اضافہ کرنا بھی ہے۔

پاکستان میں جنگلات کا کل رقبہ5.2 فیصد ہےلیکن مختلف وجوہات خصوصاً غیرقانونی کٹائی کے باعث ہر سال اس میں 66 ہزار ایکڑ کی کمی ہو رہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگلات سیلاب سے بچاؤ کا ایک اہم ذریعہ ہیں اوراگران کی غیر قانونی کٹائی کے عمل کی حوصلہ شکنی کے لیے ایک مؤثر پالیسی وضع کی گئی ہوتی تو پاکستان میں حالیہ سیلاب سے ہونے والے بھاری نقصان کو کسی حد تک کم کرنا ممکن تھا۔

وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں وفاقی وزارت ماحولیات کے ایک سینئرعہدیدار ڈاکٹر شہزاد جہانگیر نے کہا کہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں مالاکنڈ کو سیلاب سے بہت زیادہ نقصان ہوا جس کی بڑی وجہ حالیہ چند سالوں کے دوران وہاں عسکریت پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں اور ان کےخلاف فوجی آپریشن ہیں۔

سرکاری اندازوں کے مطابق عسکری کارروائیوں کے باعث ان علاقوں میں تقریباً دو لاکھ ایکڑ سے زائد جنگلاتی رقبہ تباہ ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر شہزاد نے بتایا کہ اسی صوبے کے ضلع مانسہرہ، بالاکوٹ، ایبٹ آباد اور شنکیاری میں سیلاب سے نسبتاً بہت کم نقصان ہوا کیونکہ یہاں گھنے جنگلات کے رقبے میں کوئی نمایاں کمی نہیں ہوئی ہے ۔

’’اگرچہ جنگلات سیلاب سے سو فیصد تحفظ تو نہیں دیتے لیکن یہ قدرتی طور پر بچاؤ کا بڑا ذریعہ ہیں‘‘

اُنھوں نے کہا کہ سیلاب سے جنگلات کو ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگایا جارہا ہے اور ان کے بقول ابتدائی اندازوں کے مطابق پنجاب ،سندھ اور خیبر پختون خواہ میں دریا کے کنارے چھوٹے درختوں کو بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔

وفاقی وزیر ماحولیات حمید اللہ جان آفریدی نے وی او اے سے گفتگو میں بتایا ہے کہ عالمی حدت کے تناظر میں آئندہ ممکنہ سیلاب کی تباہی سے بچنے کے لیے حکومت نے ایک نئی پالیسی ترتیب دے دی ہے جس کا مقصد نہ صرف جنگلات کے غیر قانونی کٹاؤ کو روکنا ہے بلکہ جنگلاتی رقبے میں دس لاکھ ہیکٹر تک اضافہ کرنا بھی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ پالیسی کا مسودہ منظوری کے لیے کابینہ کو بھیجا جا چکا ہے جس میں دیگر معاملات کے علاوہ 1993ء سے درختوں کی کٹائی پر عائد پابندی پر بھی نظر ثانی کی گئی ہے جو ان کے بقول ایک غلط فیصلہ ثابت ہوا کیونکہ اس نے درختوں کے تحفظ کی بجائے ان کی غیر قانونی کٹائی کو فروغ دیا۔

مزید وضاحت کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے بتایا کہ پاکستان میں نوے فیصد جنگلات نجی ملکیت ہیں اور ایک بڑی آبادی کا روزگار بھی انھیں درختوں سے حاصل ہونے والی لکڑی یا فصلوں سے وابستہ ہے جس کی وجہ سے سرکاری پابندی کارگر ثابت نہیں ہو سکی ۔

’’ہونا یہ چاہیئے کہ خشک، بیماری سے متاثرہ اور دیگر درخت کاٹنے اور ان کی جگہ نئے درخت لگانے کا ایک متوازن قانونی طریقہ کار موجود ہو اور جنگلات کی قدرتی افزائش جاری رہے۔‘‘

اُنھوں نے بتایا کہ جنگلات میں اضافے کے جامع منصوبے کے لیے وفاقی حکومت صوبوں کو13 ارب روپے کے خطیر رقم کے ساتھ تکنیکی امداد بھی دے رہی ہے۔

پاکستان کے جنگلات کے موجودہ رقبے کو اگرچہ عالمی معیار کے لحاظ سے کم قرار دیا جاتا ہے لیکن ملک نے سال 2009 ء میں ایک دن کے اندر پانچ لاکھ سے زائد پودے لگانے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ حمید اللہ آفریدی کا کہنا ہے کہ اس ہفتے پاکستان کا ایک فوجی جوان میر جمیل انفرادی سطح پر کینیڈا کے ایک باشندے کا ایک دن میں تقریباً پندرہ ہزار پودے لگانے کا ریکارڈ توڑنے کی کوشش کرے گا۔

XS
SM
MD
LG