رسائی کے لنکس

’لاپتا افراد کی بازیابی کی کوششیں بار آور ثابت ہو رہی ہیں‘


پاکستان میں لاپتا افراد کے معاملات کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے کہا ہے کہ ان لوگوں کو بازیاب کروانے کی کوششیں بار آور ثابت ہو رہی ہیں اور تاحال 178 درخواستیں نمٹائی جا چکی ہیں۔

سپریم کورٹ کے سابق جج جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم کمیشن نے پیر کو سرکاری طور پر جاری کی گئی تفصیلات میں کہا ہے کہ ان ہی کوششوں کی بدولت صرف گزشتہ ماہ 18 افراد کو بازیاب کرایا گیا۔

یکم جنوری 2011ء کو کمیشن کے سامنے 138 کیس تھے جب کہ رواں سال فروری کے اختتام تک 333 نئی درخواستیں اُسے موصول ہوئیں۔

سرکاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ’’کمیشن لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے پُر عزم ہے‘‘۔

کمیشن لاپتا افراد سے متعلق درخواستوں کی باقاعدگی سے سماعت کر رہا ہے اور رواں ماہ کے وسط میں کوئٹہ جانے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔

لاپتا افراد کے معاملات کی تحقیقات سے متعلق یہ تفصیلات ایک ایسے وقت ذرائع ابلاغ کو جاری کی گئی ہیں جب سپریم کورٹ نے کمیشن کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنا کام جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔

انسانی حقوق کی علم بردار تنظیموں اور قوم پرست بلوچ رہنماؤں کے بقول مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں لوگوں کی جبری گمشدگی پاکستان کے سب سے بڑے لیکن پسماندہ ترین صوبے کے سنگین مسائل میں سر فہرست ہے۔

ان حلقوں کا دعویٰ ہے کہ سلامتی سے متعلق اداروں نے دہشت گردی اور ریاست کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں ہزاروں افراد کو اپنی غیر قانونی تحویل میں لے رکھا ہے اور اُنھیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا قانونی حق فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔

بلوچ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ لاپتا افراد میں اکثریت اُن نوجوانوں کی ہے جو صوبائی خودمختاری اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔

لیکن حکومت اور سکیورٹی ادارے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ذاتی مفاد کی خاطر لاپتا افراد کے معاملے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جا رہا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک کا کہنا ہے کہ لاپتا افراد کے سلسلے میں قائم تحقیقاتی کمیشن کے مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق بھی لاپتا افراد کی تعداد محض 48 ہے۔

ان لوگوں کے رشتہ داروں نے گزشتہ کئی ہفتوں سے اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے ایک احتجاجی کیمپ لگا رکھا ہے، جہاں وقتاً فوقتاً سیاسی رہنما جا کر اُنھیں اپنی حمایت کا یقین دلاتے اور ان سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔

مگر مظاہرین کا کہنا ہے کہ محض زبانی داد رسی کے بجائے سیاسی رہنماؤں کو پارلیمان کی سطح پر اس مسلسلے کو حل کرنے کے لیے اقدامات کرنا چاہیئں۔

لاپتا افراد کا معاملہ گزشتہ کئی ماہ سے ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیاں بنا ہوا ہے جب کہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے ان مطالبات میں بھی تیزی آئی ہے کہ سلامتی سے متعلق انٹیلی جنس اداروں کو نئی قانون سازی کے ذریعے اپنی کارروائیوں کے لیے جوابدہ بنایا جائے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ ایوان کے آئندہ اجلاس میں ان کی جماعت اس سلسلے میں ایک قرارداد پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، لیکن انٹیلی جنس اداروں کو لگام دینے سے متعلق اقدامات اور قانون سازی کی اولین ذمہ داری حکومت وقت کی ہوتی ہے۔

XS
SM
MD
LG