رسائی کے لنکس

لاپتا افراد: اعتماد کی بحالی کی ضرورت پر زور


لاپتا افراد: اعتماد کی بحالی کی ضرورت پر زور
لاپتا افراد: اعتماد کی بحالی کی ضرورت پر زور

کوئی بھی شخص جو کسی بھی جرم میں مطلوب ہو اُس پر ریاست کا قانون لاگو ہونا چاہیئے: سربراہ قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق

انسانی حقوق سے متعلق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کےسربراہ، ریاض فتیانہ کا کہنا ہے کہ لاپتا افراد کےمعاملے میں شدت اُس وقت آئی جب سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں 85برس کےسینئر سیاستدان اوربلوچ راہنما، اکبر بگٹی کو ہلا ک کیا گیا، جو کہ، اُن کے بقول، ’کوئی درست فیصلہ نہیں تھا‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’اُس واقعے کے بعد اِس معاملےکی کشیدگی میں اضافہ ہوا‘ اور یہ کہ اِس سلسلے میں اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔

بدھ کو’وائس آف امریکہ ‘سے گفتگو میں، ریاض فتیانہ نے کہا کہ حکومت بلوچوں کے ’ہر جائز حق اور مطالبے کی حمایت کرتی ہے‘۔ اُن سے معلوم کیا گیا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ لاپتا افراد کا معاملہ بلوچستان میں بہت زیادہ شدید نظر آتا ہے۔

اُن کے بقول، حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ کوئی بھی شخص جو کسی بھی جرم میں مطلوب ہو اُس پر ریاست کا قانون لاگو ہونا چاہیئے۔

ایک سوال کے جواب میں ریاض فتیانہ نے بتایا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سویلین اور عسکری اہل کار شریک ہوتے ہیں، اور یہ یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ ’کسی ناجائز بات کی حمایت نہیں کی جائے گی‘۔

اُنھوں نے اِس بات کی نفی کی کہ یہ وہ سیاستداں جو اسلام آباد میں قائم لاپتا افراد کے کیمپ کا دورہ کرتے ہیں اُن کے کوئی سیاسی مقاصد ہیں۔

ریاض فتیانہ نے کہا کہ لاپتا افراد کے معاملے پر عدالتِ عظمیٰ نے ایک جوڈیشنل کمیشن قائم کیا ہے، اور قوم اس کمیشن کی حتمی رپورٹ کی منتظر ہے۔

اُن کے بقول، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لاپتا افراد کے معاملے میں غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیاں ملوث ہیں، تاکہ، افراتفری پھیلے۔

یاد رہے کہ عدالتِ عظمیٰ میں بھی لاپتا افراد سےمتعلق مقدمات کی سماعت جاری ہے، جب کہ سپریم کورٹ کے سابق جج جاوید اقبال کی سربراہی میٕں ایک کمیشن اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔

تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG