رسائی کے لنکس

کراچی میں کشیدگی، ضمنی انتخاب میں فوج طلب


کراچی میں کشیدگی، ضمنی انتخاب میں فوج طلب
کراچی میں کشیدگی، ضمنی انتخاب میں فوج طلب

کراچی میں گزشتہ روز سے جاری کشیدگی اور ٹارگٹ کلنگ میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 9 ہوگئی ہے، جبکہ صوبائی اسمبلی کی خالی ہونے والی ایک نشست پر ضمنی انتخاب کے دوران شہر میں فوج طلب کرلی گئی ہے۔

جمعرات کے روز حکومتِ سندھ کی جانب سے وزارتِ دفاع کو بھجوائی گئی ایک درخواست میں سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس -94 میں 17 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخاب کے موقع پر تین روز کے لیے فوج بھجوانے کی درخواست کی گئی ہے۔ شہر کے علاقے اورنگی ٹاؤن کی یہ نشست اگست میں حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے رکنِ اسمبلی رضا حیدر کے قتل کے بعد خالی ہوئی تھی۔

صوبائی حکومت کی جانب سے فوج کی تعیناتی کی درخواست چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ حامد علی مرزا کی ہدایت پر کی گئی ہے، جنہوں نے گزشتہ روز ضمنی انتخاب کے جائزے کےلیے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی تھی۔ حکام کے مطابق اجلاس میں حساس اداروں کی جانب سے کراچی میں ضمنی الیکشن کے موقع پر امن وامان کی صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا جس کے بعد انتخاب کے دوران فوج طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

الیکشن کمیشن نے مذکورہ حلقے کے تمام پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دے کر صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انتخاب کے دوران فول پروف سیکیورٹی یقینی بنانے کی ہدایت جاری کی ہے۔

صوبائی سیکرٹری داخلہ کے مطابق حکومت نے 16 اکتوبر سے 18 اکتوبر تک فوج طلب کی ہے، جو حلقے میں امن و امان برقرار رکھنے میں پولیس اور رینجرز کی مدد کرے گی۔

مبصرین کے مطابق ضمنی انتخاب میں بنیادی مقابلہ ایم کو ایم اور حکومتی اتحاد میں شامل ایک اور جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے امیدواران کے درمیان متوقع ہے۔ اے این پی نے حکومت کی جانب سے فوج طلب کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

جمعرات کے روز کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اے این پی کے صوبائی صدر شاہی سید کا کہنا تھا کہ اگر انتخاب کے موقع پر فوج طلب نہیں کی جاتی تو ان کی جماعت کو ہتھیار اٹھانے یا ضمنی انتخاب کے بائیکا ٹ میں سے کسی ایک آپشن کو اختیار کرنا پڑتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر فوج نہ آئی تو ان کی جماعت انتخاب کے بائیکاٹ کو ترجیح دے گی۔

فوج طلب کرنے کے فیصلے پر ایم کیو ایم نے تاحال کسی ردِعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔

ادھر شہر میں بدھ کی شام سے اچانک شروع ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں ہلاکتوں کی تعداد 9 ہوگئی ہے ۔ ہلاک شدگان کی اکثریت کا سیاسی تعلق ایم کیو ایم سے بتایا جارہا ہے۔

کراچی میں تازہ کشیدگی بدھ کی رات دو افراد کی لاشوں کی برآمدگی سے شروع ہوئی تھی جنہیں اغوا کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا تھا۔ ایم کیو ایم کے مطابق دونوں مقتولین اس کے کارکن تھے۔ بدھ کو رات گئے آگرہ تاج کالونی اور کلفٹن کے علاقوں میں دو مزید افراد کو سرِ راہ فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔

جمعرات کی دوپہر ایئرپورٹ کے نزدیکی علاقے ملیر ہالٹ میں کھڑی ایک گاڑی سے تین افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں، جنہیں تشدد کے بعد گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ ایم کیو ایم کے رہنمائوں کے مطابق تینوں مقتولین ان کے کارکن تھے۔ بعد ازاں اورنگی ٹائون کے مختلف علاقوں میں ہونے والی فائرنگ سے دو مزید افراد ہلاک ہوگئے، جس کے بعد گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 9 ہوگئی ہے۔

ایم کیو ایم نے الزام عائد کیا ہے کہ قومی اسمبلی میں زرعی اصلاحات کے حوالے سے قانون سازی کی کوشش کی پاداش میں اس کے کارکنان کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

اراضی کی حدِ ملکیت کے ملکی قانون 1959ء میں ترمیم کےلیے منگل کے روز ایم کیو ایم کی جانب سے قومی اسمبلی میں ایک بل جمع کرایا گیا تھا جس میں زرعی اراضی کی حدِ ملکیت اور اس سے متعلق دیگر اصلاحات تجویز کی گئی تھیں۔ مسودہ قانو ن میں بارانی علاقوں میں زمین کی زیادہ سے زیادہ حد 54 ایکڑ جبکہ نہری زمین کی حد 36 ایکڑ مقرر کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ مجوزہ قانون میں جاگیردارانہ نظام اور وسیع زرعی اراضی رکھنے کو خلافِ قانون قرار دیے جانے کی تجویز دی گئی ہے۔

قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے پارلیمانی رہنما اور وفاقی وزیر ڈاکٹر فاروق ستار نے جمعرات کے روز اسلام آبادمیں ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ ان کے کارکنان کے قتل میں کراچی کے مقامی جرائم پیشہ گروہ ملوث ہیں جنہیں حکومتِ سندھ میں شامل بعض عناصر کی سرپرستی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2009ءسے اب تک کراچی میں ایم کیو ایم کے 200 کارکنان اور راہنما قتل کیے جاچکے ہیں، جن میں سے کسی ایک کے قاتل بھی گرفتار نہیں کیے گئے۔

XS
SM
MD
LG