رسائی کے لنکس

فوجی عدالتوں کی بحالی پر تاحال کوئی پیش رفت نا ہو سکی


پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انتہائی نازک وقت پر بہت اہم کردار ادا کیا اور آپریشن ضرب عضب میں ملنے والی کامیابیوں کو بامعنی بنایا۔

پاکستان میں متنازع فوجی عدالتوں کی بحالی کے لیے حکومت پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں کو قائل کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن تاحال اس معاملے پر اپوزیشن جماعتوں کے خدشات برقرار ہیں۔

فوجی عدالتوں کی بحالی کے بارے میں مشاورت کے لیے اسپیکر ایاز صادق کی قیادت میں پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس ہو چکے ہیں، جن میں حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے یہ مطالبات سامنے آئے کہ حکومت نا صرف فوجی عدالتوں کی اب تک کی کار گزاری کے بارے میں بریفنگ دے بلکہ یہ بھی بتایا جائے کہ مروجہ عدالتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے کیا کیا گیا ہے۔

حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پارلیمانی جماعتوں نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اس بارے میں سیاسی جماعتوں کو مفصل بریفنگ دے۔

’’حکومت نے اگر موجودہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں اصلاحات کرنی ہیں تو اُس کا خاکہ ہمارے سامنے رکھا جائے، تاکہ ہم اُس کا جائزہ لیں سکیں۔‘‘

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جب فوجی عدالتیں قائم کی جا رہی تھیں تو اُس وقت وزیراعظم نواز شریف خود مشاورتی عمل میں شامل تھے اور اُنھیں اب بھی خود اس عمل میں شرکت کرنی چاہیئے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 16 فروری کو پارلیمانی سیاسی جماعتوں کا مشاورتی اجلاس پھر ہو گا، جس میں توقع ہے کہ حکومت فوجی عدالتوں کی بحالی سے متعلق اپنی تجاویز سامنے رکھے گی۔

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و اںصاف کی سربراہ جاوید عباسی کہتے ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو درپیش چیلنجوں کے تناظر میں ان عدالتوں کا قیام ضروری تھا اور حکومت چاہتی ہے کہ اتفاق رائے ہی سے فوجی عدالتوں کو بحال کیا جائے۔

’’تمام سیاسی جماعتوں کو ایک بار پھر ایک جگہ بٹھایا جا رہا ہے اور ان سے بات چیت کی جا رہی ہے کہ ان کی کیا افادیت ہے اور ان کو جاری رہنا چاہیئے اس بارے میں غور و خوض ہو رہا ہے اور جو فیصلہ پارلیمانی جماعتیں کریں گی وہی بہتر ہو گا اور اسی کو آگے لےکر جانا چاہیئے۔‘‘

واضح رہے کہ پشاور میں دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کے ایک ہنگامی مشاورتی اجلاس میں فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے آئین میں ترمیم بھی کی گئی۔

فوجی عدالتوں کی مدت دو سال مقرر کی گئی تھی جو گزشتہ ماہ کے اوائل میں ختم ہو گئی۔

پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انتہائی نازک وقت پر بہت اہم کردار ادا کیا اور آپریشن ضرب عضب میں ملنے والی کامیابیوں کو بامعنی بنایا۔

پاکستان میں بہت سے حلقے بشمول سیاسی جماعتوں کی طرف سے کہا جاتا رہا ہے کہ فوجی عدالتوں میں توسیع مسئلے کا حل نہیں ہے۔

جب کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان عدالتوں کے قیام اور ان میں چلائے جانے والے مقدمات میں مبینہ طور پر انصاف کے تقاضے پورے نا کیے جانے سے متعلق سوالات اٹھاتی رہی ہیں۔

لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں میں جن ملزمان کے خلاف مقدمات چلائے گئے اُنھیں نا صرف صفائی کا پورا موقع دیا گیا بلکہ وکیل کی سہولت بھی فراہم کی گئی۔

XS
SM
MD
LG