رسائی کے لنکس

'مذہب کے نام پر کاروبار بند ہونے تک دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں'


وزیر دفاع خواجہ آصف (فائل فوٹو)
وزیر دفاع خواجہ آصف (فائل فوٹو)

معروف تجزیہ کار اور ابلاغیات کے استاد ڈاکٹر مہدی حسن بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی کے فروغ میں ذرائع ابلاغ نے اپنا کردار ادا کیا۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان کے بقول مذہب کے نام پر کاروبار ہوتا رہے اور مذہبی تفرقے کا پھیلاؤ جاری رہے۔

سیالکوٹ میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف سیاسی و عسکری سطح پر اتفاق رائے سے کی جانے والی کوششوں کے ثمرات امن کی صورت میں سامنے آئے ہیں لیکن یہ کامیابیاں اور جنگ میں قربان ہونے والی ہزاروں جانیں رائیگاں جائیں گی اگر مذہبی تفرقے بازی کا پرچار جاری رہا۔

انھوں نے متنبہ کیا کہ دہشت گردی ایک سوچ کا نام ہے جس کی تبدیلی تک دہشت گردی کو جڑ سے نہیں اکھاڑا جا سکے گا۔

"جب تک یہ ذہنی کیفیت اور سوچ نہیں بدلے گی۔۔۔جب تک مذہب بکتا رہے گا جب تک مذہب کے نام پر کاروبار ہوتا رہے گا مذہبی تفرقہ اسی طرح بڑھتا رہے گا۔۔۔جب تک یہ نفرتوں کے سوداگر زہر افشانی کرتے رہیں گے تب تک یہ دہشت گردی ختم نہیں ہو سکے گی۔"

یہ امر قابل ذکر ہے کہ دو سال قبل حکومت نے ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خامتے کے لیے قومی لائحہ عمل ترتیب دیا تھا جس کے تحت مذہبی منافرت اور اشتعال انگیزی پھیلانے والوں کے خلاف بھی کارروائی کا بتایا جا چکا ہے۔

لیکن اس کے باوجود یہ شکایات سامنے آتی رہی ہیں کہ خاص طور پر ذرائع ابلاغ کے بعض حصوں پر مذہبی منافرت سے متعلق بیانات نشر ہو رہے ہیں۔

وفاقی وزیر بھی اپنی تقریر کے دوران ایسا ہی تذکرہ کرتے دکھائی دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ مبینہ طور پر کاروباری نقطہ نگاہ سے میڈیا تفرقہ پھیلانے والوں کو موقع فراہم کر رہا ہے۔

معروف تجزیہ کار اور ابلاغیات کے استاد ڈاکٹر مہدی حسن بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی کے فروغ میں ذرائع ابلاغ نے اپنا کردار ادا کیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ذرائع ابلاغ اس بارے میں اپنی سماجی ذمہ داری پوری نہیں کر سکا ہے۔

"اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب کے حوالے سے کہی جانے والی باتوں پر پاکستان میں اعتراض کرنے یا اصلاح کرنے کی گنجائش لوگ برداشت نہیں کرتے اور یہ مذہبی تنظیمیں اتنی طاقتور ہیں کہ آپ کوئی بھی ایسا خیال ظاہر نہیں کر سکتے جو ان کے اندازے کے مطابق مذہب کے خلاف ہو۔ اس لیے میڈیا مذہب کےحوالے سے اپنی سماجی ذمہ داری پوری نہیں کر سکتا۔"

ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ مذہب کے معاملے پر حکومتوں کا رویہ بھی معذرت خواہانہ رہا ہے جو کہ مناسب نہیں۔ ان کے بقول حکومتوں کے ساتھ ساتھ یہ سماج کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ انتہا پسندانہ سوچ کی ترویج کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

XS
SM
MD
LG