رسائی کے لنکس

پاکستان: لاپتہ افراد کے معاملے پر عوامی سماعت کا فیصلہ


سینیٹر مشاہد حیسن سید کہتے ہیں کہ قائمہ کمیٹی میں یہ سفارش بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان جبری گمشدگی کے خلاف عالمی کنونشن پر دستخط کر کے اس کی توثیق بھی کرے۔

پاکستان میں لاپتہ افراد اور جبری گمشدگی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے عوامی سماعت کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے۔

اس سماعت میں کمیٹی کے اراکین کے مطابق ان تجاویز پر بحث کی جائے گی کہ کس طرح مشتبہ شدت پسندوں کو حراست میں لینے، ان کی تفتیش اور ان کے خلاف قانونی کارروائی سے متعلق انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو قانونی ضابطے کے تحت لایا جائے۔

دہشت گردی اور شدت پسندی نے گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اب تک ہزاروں شہری اور فوجی پرتشدد حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ جہاں ملکی افواج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شدت پسندی کے خلاف جنگ میں مصروف عمل ہیں وہیں ملک کی موجودہ غیر معمولی صورتحال کے پیش نظر دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے انسداد دہشت گردی کے قوانین کو بھی سخت اور مؤثر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے ارکان نے بتایا کہ لائحہ عمل وضع کرنے کے لیے کی جانے والی اس سماعت میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں، وکلاء اور ماہرین کو شرکت کی دعوت دی جائے گی۔

کمیٹی کے رکن سینیٹر مشاہد حسین سید نے ہفتہ کو بتایا کہ اس اقدام کا مقصد گزشتہ چند سالوں کے دوران مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے گھمبیر مسئلے کا مؤثر حل تلاش کرنا ہے۔

’’ ہم کہتے ہیں کہ بندے غائب نہ ہوں اگر کسی پر الزام ہے تو قانون کے تحت اسے پکڑ لیا جائے ان کے اہل خانہ کو آگاہ کردیا جائے اور اس کی وکیل تک رسائی ہو۔ تفتیش کے دوران فیصلہ ہوجائے کہ ان کے خلاف صرف الزام ہے یا ثبوت بھی ہیں۔‘‘

مشاہد حیسن سید کہتے ہیں کہ قائمہ کمیٹی میں یہ سفارش بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان جبری گمشدگی کے خلاف عالمی کنونشن پر دستخط کر کے اس کی توثیق بھی کرے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا ماننا ہے کہ پاکستان میں سینکڑوں افراد لاپتہ ہیں جبکہ حکومت کے مطابق یہ تعداد اس سے بہت کم ہے۔

سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد سے متعلق مقدمے میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے وکیل راجہ ارشاد کہتے ہیں کہ شدت پسندوں کے خلاف اداروں کی سرگرمیوں کو ضابطے کے تحت لانے کے لیے مخصوص قوانین بنائے جائیں۔

’’اگر عام قوانین کے تحت ایسا کیا گیا تو یہ (خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے) ادارے غیر مؤثر ہوجائیں گے۔‘‘

حکومت میں شامل جماعت مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر مشاہد حیسن سید کہتے ہیں کہ کمیٹی خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دہشت گردی کے خلاف کارکردگی کو مزید مؤثر بنانے کے لیے ان کے اختیار بڑھانے سے متعلق سفارشات پر غور بھی کر رہی ہے۔
XS
SM
MD
LG