رسائی کے لنکس

دھرنا ختم ہو گیا مگر جبری گمشدگیوں کا مسئلہ حل نہیں ہوا


سول سوسائٹی کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج، فائل فوٹو
سول سوسائٹی کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج، فائل فوٹو

کراچی میں وائس فار شیعہ مسنگ پرسنز کے زیر اہتمام لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے جاری دھرنا ختم ہو گیا ہے۔ 13 روز سے جاری دھرنے کے شرکا اپنے لاپتا پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔ محمد علی سوسائٹی میں واقع صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے گھر کے باہر دھرنے میں خواتین اور بچوں سمیت درجنوں خاندان شریک تھے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں لاپتا افراد کا مسئلہ بظاہر اپنے حل سے دور ہے اور متاثرہ خاندان اس سلسلے میں کام کرنے والے کمشن کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں ڈیفنس فار ہیومن رائٹس کی آمنہ جنجوعہ اور ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن نے اس معاملے پر گفتگو کی۔

آمنہ جنجوعہ خود بھی لاپتا افراد کے مسئلے کے متاثرین میں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ سرکاری تحویل میں ہلاک کر دیے جاتے ہیں یا جنہیں خصوصی حراستی مراکز میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں سے کسی کی بھی زندہ واپسی ممکن نہیں ہوتی، کمشن اسے حل شدہ کیس قرار دے دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمشن کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ معاملات کی تحقیقات کریں گے اور گمشدگیوں میں ملوث افراد کے خلاف مقدمے درج کروائیں گے۔ لیکن آٹھ نو سال گزرنے کے باوجود ابھی تک کمشن گمشدگیوں میں ملوث کسی ایک شخص کے خلاف مقدمہ درج کروا سکا ہے اور نہ ہی کسی کو سزا دلوا سکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمشن جن کیسوں میں پروڈکشن آرڈر جاری کرتا ہے اور لاپتا افراد کو پیش کرنے کا حکم دیتا ہے اس پر بھی عمل نہیں کیا جاتا۔

آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ کمشن کے مطابق یہ پانچ ہزار سے ساڑھے پانچ ہزار کے کے لگ بھگ کیسز تھے جن میں سے جن میں سے کمشن کے مطابق دو ہزار کیس ابھی حل ہونا ہیں جب کہ بقیہ بقول ان کے حل کر دیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ قوانین موثر نہیں ہیں اور اب وہ خود ’وکٹمز بل‘ کے نام سے ایک قانونی مسودہ تیار کر رہی ہیں جسے جلد ہی حکومت اور قانون سازوں کو پیش کر دیا جائے گا۔

ڈاکٹر مہدی حسن نے ملک میں حقوق انسانی اور لاپتا افراد کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں حقوق انسانی کی جتنی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں ان میں سے بیشتر حکومتی اداروں کی جانب سے ہوتی ہیں اور جب حکومت سے اس سلسلے میں رابطہ کیا جاتا ہے تو وہ اس کی تردید کرتی ہے اور یہ اسی حکومت پر منحصر نہیں ہے, ہر حکومت کا یہی رویہ ہوتا ہے۔ اس بارے میں حکومت کا موقف یہ ہے کہ وہ حقوق انسانی کی کسی بھی خلاف ورزی کو روکنے اور لاپتا افراد کا مسئلہ حل کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔

اس بارے میں مزید تفصیلات کے لیے اس آڈیو لنک پر کلک کریں۔

please wait

No media source currently available

0:00 0:03:38 0:00

لاپتا افراد کے مسئلے پر اس کا موقف جاننے کے لیے لاپتا افراد کے انکوائری کمشن کے ذمہ داروں سے رابطہ قائم کیا گیا لیکن کوئی بھی پروگرام میں آ کر کمشن کا موقف بیان کرنے پر تیار نہیں ہوا۔ اگر وہ اپنا موقف دینا چاہیں تو ہم اسے بخوشی پیش کریں گے۔

کراچی کا دھرنا ختم

کراچی سے محمد ثاقب نے دھرنے کے شرکا سے بات کی۔ شیعہ مسنگ پرسنز کے سربراہ راشد رضوی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دھرنا وفاقی حکومت کی اس یقین دہانی پر ختم کیا گیا ہے کہ لاپتا افراد کو رہا کر دیا جائے گا یا پھر جن افراد کے خلاف کسی مجرمانہ سرگرمی کا الزام ہے، انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے گا۔

راشد رضوی کے مطابق صرف کراچی سے اہل تشیع مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے 47 افراد لاپتا تھے جن میں سے ان کے مطابق حالیہ دنوں میں 27 افراد اپنے گھر واپس آ گئے ہیں۔

اس سے قبل گورنر سندھ عمران اسماعیل نے وفاقی حکومت کے نمائندے کے طور پر مظاہرین کو احتجاج ختم کرنے اور لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنانے پر مذاکرات کیے تھے جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔

احتجاجی دھرنے کے شرکا اس سے قبل اپنے اس مطالبے پر ڈٹے ہوئے تھے کہ وہ لاپتا افراد کی بازیابی تک دھرنا جاری رکھیں گے۔

مظاہرین کے مطابق انہوں نے بازیابی کے لیے ہر دروازہ کھٹکھٹایا، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر لاپتا افراد میں سے کسی کے بھی خلاف جرائم میں ملوث ہونے کے شواہد ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے اور ان پر مقدمہ چلایا جائے۔ لیکن کسی کو جبری لاپتا کرنا انسانی حقوق، ملکی قوانین اور اخلاقیات کے منافی ہے۔

بعض شیعہ رہنماؤں کو سیکورٹی اداروں اور حکومتی شخصیات نے یہ بتایا تھا کہ ان کے لاپتا افراد میں سے اکثر وہ ہیں جو ایران کی حمایت یافتہ تنظیم زینبیون بریگیڈ میں شامل تھے۔ یہ عسکری گروپ شام میں داعش کے خلاف لڑتا رہا اور وہ صدر بشارالاسد کا حامی ہے۔

میڈیا ذرائع کے مطابق پاکستان سے شام جا کر اس ملیشیا کا حصہ بننے والے افراد کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔

ملک میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ ایک سنجیدہ اور پیچیدہ انسانی مسئلہ ہے، جس کے حل کے لیے مارچ 2011 میں ایک انکوائری کمشن تشکیل دیا گیا تھا۔

حال ہی میں کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اپریل 2019 میں مزید 136 افراد کی گمشدگی سے متعلق درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ جس کے بعد ان کیسز کی مجموعی تعداد 6051 ہو گئی ہے۔ ان میں سے 3793 مقدمات نمٹائے جا چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG