رسائی کے لنکس

ایم کیو ایم کے خلاف معاملے کے سیاسی مضمرات بھی ہو سکتے ہیں: مبصرین


پروفیسر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی کرنے میں حکام کو بھی مشکلات درپیش ہو سکتی ہیں کیونکہ ایسے قابل اعتبار شواہد درکار ہوں گے جنہیں عدالت میں قبول کیا جا سکے۔

پاکستان میں ان دنوں ذرائع ابلاغ میں سب سے زیادہ جو موضوع زیر بحث ہے وہ متحدہ قومی موومنٹ سے متعلق برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ میں پیش کیے گئے انکشافات ہیں۔

اس ہفتے بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ایم کیو ایم کے رہنما کراچی میں بدامنی کے لیے مبینہ طور پر بھارت سے رقوم لیتے رہے اور ان کے کارکنان تربیت لینے کے لیے بھارت جاتے رہے۔

ایم کیو ایم ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے اپنی ساکھ خراب کرنے کی کوششوں کا حصہ قرار دیتی ہے اور اس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جماعت پر ایسے ہی کئی الزامات ماضی میں بھی لگائے جاتے رہے جن کی ان کے بقول کوئی حقیقت نہیں۔

حکومتی عہدیدار کہتے ہیں کہ پاکستانی ایجنسیاں ان انکشافات کی حقیقت جاننے کے لیے تحقیقات کر رہی ہیں جبکہ اس ضمن میں برطانوی حکومت کو بھی ایک خط لکھا جا چکا ہے۔

ملک میں دیگر سیاسی جماعتیں ان الزامات کی شفاف تحقیقات کر کے منطقی نتائج حاصل کرنے کا کہہ رہی ہیں۔

بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ تھا کہ ایم کیو ایم کے رہنما 1994ء سے مبینہ طور پر رقوم لیتے رہے۔

پاکستان میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے رواں سال ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر پر رینجرز کے چھاپے اور پھر ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کی اس طرح کی رپورٹ سے اس جماعت کے لیے صورتحال ماضی کی نسبت زیادہ گمبھیر ہے اور اسے خود کو ان الزامات سے بری الذمہ ثابت کرنے کے لیے خاصی مشکل پیش آسکتی ہے۔

سینیئر تجزیہ کار حسن عسکری رضوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس کے پاکستان کی سیاست پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔

"سیاسی نظام پر اس کا منفی اثر پڑے گا کیونکہ اگر یہ باتیں ایم کیو ایم کے بارے میں صحیح ثابت ہوجاتی ہیں اور اگر ایم کیو ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے تو اس کے نتائج بھی برے ہیں لگتا ہے کہ ملک کی سیاسی قوتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور ان میں تقسیم در تقسیم ہورہی ہے اور وہ کمزور ہو رہی ہیں اور سول حکومت میں کام کرنے کا عزم کم ہو رہا ہے اور میرے خیال میں یہ اچھی بات چیز نہیں ہے ملک میں جمہوریت کے لیے" ۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی کرنے میں حکام کو بھی مشکلات درپیش ہو سکتی ہیں کیونکہ ایسے قابل اعتبار شواہد درکار ہوں گے جنہیں عدالت میں قبول کیا جاسکے۔

لیکن کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف تجزیہ کار ہما بقائی کہتی ہیں کہ سیاسی مصلحت کے بغیر اگر اسٹبلشمنٹ کوئی کارروائی کرنا چاہے گی تو ان کے لیے اس وقت صورتحال ماضی کی نسبت آسان ہے۔

"میرے خیال میں سندھ کی سیاست میں یہ دیکھنا چاہیئے کہ کون کیا کرنے کی کوشش کر رہا ہے ایم کیو ایم کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے باتیں بہت عرصے ہو رہی تھیں اور ایم کیو ایم کے روابط کے بارے میں باتیں بھی ہو رہی تھیں لیکن اب یہ صاف صاف عوامی حلقوں میں آ گئی ہیں اور ان پربحث ہو گئی ہے اور اگر ان پر اسٹیبلیشمنٹ کو کوئی کارروائی کرنی ہے تو وہ بہت آسان ہو گئی ہے"۔

ادھر مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق لندن میٹروپولیٹن پولیس کی ایک ٹیم بھی پاکستان پہنچ چکی ہے جو ایم کیو ایم کے رہنما عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث پاکستان میں زیرحراست افراد سے پوچھ گچھ کرے گی۔

عمران فاروق کو ستمبر 2010 میں لندن میں قتل کیا گیا تھا اور برطانوی حکام یہ کہتے رہے ہیں کہ اس میں ملوث افراد پاکستان میں سکیورٹی حکام کی تحویل میں ہیں۔ رواں ماہ ہی وفاقی وزیرداخلہ نے تصدیق کی تھی کہ اس سلسلے میں دو ملزمان کو پاک افغان سرحد پر چمن کے علاقے سے گرفتار کیا گیا جب کہ کراچی سے معظم علی نامی ایک شخص بھی اس معاملے میں گرفتار ہے۔

لندن پولیس کو پاکستان آکر ان افراد سے پوچھ گچھ کی اجازت گزشتہ ہفتے ہی دی گئی تھی۔

XS
SM
MD
LG