رسائی کے لنکس

ماہ محرم میں سکیورٹی کے اضافی انتظامات


اسلامی کیلنڈر کے پہلے مہینے ماہ محرم میں حالیہ برسوں کے دوران عمومی طور پر فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت میں رواں ہفتے ہزار شیعہ برادری پر مسلح حملے میں نو افراد کی ہلاکت کے کچھ گھنٹوں بعد کوئٹہ ہی میں ملک کی ایک بڑی سیاسی و مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن پر خودکش حملے کے بعد سلامتی کی صورت پر ایک بار تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

ہزارہ شیعہ برادری پر یہ حملہ ایسے وقت کیا گیا جب ملک میں ماہ محرم کا آغاز اتوار کو ہو رہا ہے۔ اسلامی کیلنڈر کے اس پہلے مہینے میں حالیہ برسوں کے دوران عمومی طور پر فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔

اسی تناظر میں اس سال ملک بھر میں ماہ محرم کے دوران سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ وفاق اور صوبوں کی سطح پر مشاورت کے بعد امام بارگاہوں اور مساجد کے باہر پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اضافی دستوں کی تعیناتی کے لیے انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

بلوچستان کے وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے شیعہ ہزارہ برادری کے لوگوں سے ملاقات کے دوران کہا کہ اس دہشت گردی کے خلاف سب کو مل کر لڑنا ہو گا۔

’’جب تک عوام اس جنگ کو اپنی جنگ نہیں سمجھیں گے ہم ان دہشت گردوں کو شکست نہیں دے سکتے۔‘‘

گزشتہ سال راولپنڈی میں یوم عاشور کے موقع پر فرقہ وارانہ تصادم میں کم از کم گیارہ افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد مشتعل مظاہرین نے کئی دکانوں کو آگ لگا دی جس سے املاک کو شدید نقصان پہنچا۔

شہر میں کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ کرفیو نافذ کر کے فوج کو تعینات بھی کرنا پڑا۔

اسی تناظر میں راولپنڈی میں ماہ محرم کے دوران سکیورٹی کے اضافی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔

اُدھر رواں ہفتے ہی اسلامی قوانین سے متعلق پاکستان کی اعلیٰ ترین مشاورتی کونسل "اسلامی نظریاتی کونسل" نے مذہبی فرقوں سے متعلق ہر قسم کی نفرت انگیز تقاریر پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے مسالک کے درمیان ہم آہنگی بڑھانے پر زور دیا۔

XS
SM
MD
LG