رسائی کے لنکس

سپریم کورٹ کے خلاف خط افسران کی مشاورت سے لکھا: نیب


چیئرمین نیب فصیح بخاری
چیئرمین نیب فصیح بخاری

پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ترجمان کے مطابق سپریم کورٹ چیئرمین نیب کو اپنے اختیارات استعمال کرنے نہیں دے رہی تھی اور نیب حکام پر تحقیقات کے حوالے سے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین فصیح بخاری نے سپریم کورٹ کی نیب کے معاملات میں ’’غیر ضروری مداخلت‘‘ سے متعلق صدر مملکت کو خط ادارے کے تمام سینیئر افسران کے ساتھ مشاورت کے بعد لکھا ہے۔

نیب کے ترجمان ظفر اقبال نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ بدعنوانی سے متعلق معاملات کی تحقیقات کرنے والے ادارے کے حکام کی یہ سوچ بن گئی تھی کہ عدالت اعظمی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے تحت کام کرنا ممکن نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب کے قانون کے مطابق یہ نیب چیئرمین کا استحقاق ہے کہ وہ تحقیقات کے احکامات جاری کریں اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج کی بنیاد پر عدالتوں میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کریں۔ مگر ترجمان کے بقول سپریم کورٹ چیئرمین نیب کو ان اختیارات کو استعمال کرنے نہیں دے رہی تھی اور نیب حکام پر تحقیقات کے حوالے سے دباؤ ڈالا جا رہا تھا جس کی بنیاد پر یہ خط لکھا گیا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں سے سپریم کورٹ کی جانب سے نیب کو تحقیقات کے لیے بھیجے جانے والے بدعنوانی سے متعلق کیسز کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے جب کہ ادارے میں عملے کی شدید کمی ہے۔

’’اگر مجھے تحقیقات کے لیے ایک کی جگہ بیس کیسز دے دیے جائیں اور مجھ سے توقع کی جائے کہ میں 90 دن میں انہیں مکمل کر لوں تو یہ نا انصافی ہو گی۔ پھر عدالت کی طرف سے دباؤ کہ یہ رپورٹ جمع کرانی ہے۔ یہ درست نہیں۔ آپ کو یہ کرنا چاہیئے تھا اور اگر عدالت کو کچھ پسند نہ آیا تو توہین عدالت کی تلوار الگ سے ہے۔‘‘


’’عدلیہ کے اس رویے سے یہاں ایک ذہن بن چکا تھا کہ شاید اس دباؤ میں کام کرنا ممکن نہ ہو۔‘‘

ظفر اقبال نے کہا کہ عدالتی احکامات کی وجہ سے نیب میں نئی تقرریاں نہیں ہورہی ہیں اور حکومت کے ادارے کے لیے منظور کردہ عملے کا صرف 30 فیصد اس وقت کام کر رہا ہے۔

سابق ایڈمرل فصیح بخاری نے پیر کو صدر آصف علی زرداری کو اپنے ایک خط میں کہا کہ عدالت اعظمیٰ کے پاس نیب کی تحقیقات کی نگرانی کرنے کے ’’محدود‘‘ اختیارات ہیں مگر جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں عدالت نیب کو ایسی مخصوص تحقیقات کرنے کا کہہ رہی ہے جس میں سیاستدان ملوث ہوں۔ ان کا الزام تھا کہ سپریم کورٹ، وکلاء کا ایک ٹولہ اور ذرائع ابلاغ مل کر ان کے ادارے کو بدنام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت سپریم کورٹ نے جو طریقہ کار اپنایا ہوا ہے اس میں وہ قانون کے تحت آزادانہ اپنی خدمات سرانجام نہیں دے سکیں گے اور اگر موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔

یہ خط ایک ایسے وقت میں لکھا گیا جب سپریم کورٹ نے نیب کو کرائے کے بجلی گھروں میں بدعنوانی کے الزامات میں وزیر اعظم راجا پرویز اشرف اور دیگر 15 افراد کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کے خط سے قبل موجودہ سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان گزشتہ مارچ میں سپریم کورٹ کی ان کے کام میں مبینہ مداخلت پر استعفیٰ دینے کا اعلان کرچکے ہیں۔

قانونی ماہرین کے مطابق آئین کے تحت صدر اس خط کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف کوئی کارروائی تو نہیں کرسکتے مگر اس سے اداروں میں تناؤ بڑھ سکتا ہے جس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کی وکلاء کی تحریک کے رہنماء حامد خان کا کہنا تھا کہ نیب چیئرمین کا خط دراصل وزیراعظم راجا پرویز اشرف کو رینٹل پاور کیس سے بچانے کے لیے لکھا گیا۔

’’صدر کے پاس یہ اختیارات ہیں کہ وہ فصیح بخاری کے خط کا نوٹس لیں اور انہیں ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے جوڈیشل کونسل کو یہ معاملہ بھیجوائیں۔‘‘

تاہم ترجمان نیب نے اس تاثر کو رد کیا کہ فصیح بخاری کی جانب سے خط وزیراعظم راجا پرویز اشرف کے خلاف کارروائی کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔
XS
SM
MD
LG