رسائی کے لنکس

پاناما لیکس کا معاملہ، حکومت پر تنقید میں اضافہ


پاکستانی پارلیمان
پاکستانی پارلیمان

پیپلزپارٹی کے ایک سینیئر رہنما اور رکن قومی اسمبلی نوید قمر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کمیشن بنا دینے سے معاملہ حل نہیں ہوگا۔

وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کے بیرون ملک اثاثوں کے پاناما لیکس میں انکشافات نے بدھ کو بھی پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ہلچل مچائے رکھی اور وزیراعظم کی طرف سے اس معاملے کی وضاحت کو بھی حزب مخالف نے مسترد کر دیا ہے۔

منگل کو ٹی وی پر وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں اپنے بچوں کے بیرون ملک اثاثوں کا دفاع کرتے ہوئے کسی بھی طرح کے غیر قانونی کام میں ملوث ہونے سے انکار کیا اور پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک سابق جج کی سربراہی میں کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

تاہم بدھ کو حزب مخالف کی دونوں بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے اس بابت قومی اسمبلی میں الگ، الگ تحریک التوا جمع کروائی جب کہ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین نے شدید احتجاج کیا۔

پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ سامنے آنے والی معلومات سے ملک کی بدنامی ہوئی ہے اور وزیراعظم کو اس معاملے پر ایوان میں آکر بات کرنی چاہیے۔

پیپلزپارٹی کے ایک سینیئر رہنما اور رکن قومی اسمبلی نوید قمر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کمیشن بنا دینے سے معاملہ حل نہیں ہوگا۔

"ہم چاہتے ہیں کہ شفاف تحقیقات ہوں اور حقائق سامنے آئیں کہ آیا اس کے لیے وسائل کے کیا ذرائع تھے یہ پوری طرح ظاہر کیے گئے یا نہیں۔۔۔ہمارے ملک میں بدقسمتی سے عدالتی کمیشنز کی کوئی خاص ساکھ نہیں رہی ہے۔"

تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری نے تحریک التوا جمع کروانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ "سپریم کورٹ کو تعینات کرنی چاہیے تحقیقاتی کمیٹی یا ٹیم اور ایک وقت مقرر کیا جانا چاہیے دو ہفتوں کا یا تین ہفتوں کا جس میں وہ اپنے نتائج دیں۔"

تحریک انصاف نے اس معاملے پر احتجاج کا بھی اعلان کیا ہے اور بدھ کو بھی مختلف شہروں میں اس کے کارکنوں نے حکومت مخالف مظاہرے کیے۔

حزب مخالف خصوصاً تحریک انصاف کے موقف کو حکومتی عہدیدار مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیراعظم کی طرف سے کمیشن کے قیام کی پیشکش کے بعد احتجاج بلا جواز ہے۔

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما اور پنجاب کے صوبائی وزیر رانا ثنا اللہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا۔

"اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی جو ہے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے اور ملک کی ترقی کے پہے کو روکنے کے لیے جس طرح دھرنوں کی سازش میں ملوث تھی پاناما لیکس میں بھی یہ لوگ ملوث ہیں۔"

ادھر جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ معاملات کے غیرقانونی ہونے کی تحقیقات ضرور کی جانی چاہیے اور وزیراعظم کی طرف سے کمیشن کے قیام کے اعلان کے بعد اب معاملے کو کمیشن پر چھوڑ دینا چاہیے۔

"کسی زمانے میں وکی لیکس آگیا تھا اس پر ایک طوفان کھڑا کر دیا تھا اب یہ دوسرا لیکس ہے کل کوئی اور لیکس آجائے گا۔۔۔ اتنی بڑی دولت اگر جائز ہے تو اس کو ملک کے اندر کیا خطرہ ہے، آجانی چاہیے کہ دولت ملک کے اندر اگر ناجائز ہے تو پھر یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ناجائز کیوں ہے۔۔۔میرا خیال ہے اس کو اب کمیشن پر چھوڑ دینا چاہیے کہ آگے جا کر وہ کیا کرتا ہے۔"

رواں ہفتے وسطی امریکہ کے ملک پاناما میں قائم ایک ادارے "موسیک فونسیکا" کی ایک کروڑ چالیس لاکھ دستاویزات پر مبنی رپورٹس شائع ہوئی تھیں جن میں مختلف ملکوں کی بااثر شخصیات کے بظاہر محصولات سے بچنے کے لیے بیرون ملک قائم کمپنیوں اور بینک کھاتوں کے بارے میں معلومات افشا کی گئی تھیں۔

ان رپورٹس میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کے علاوہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کا نام بھی شامل تھا۔

XS
SM
MD
LG