رسائی کے لنکس

پاکستان: غیر مسلموں پر شراب پینے کی پابندی کے بل کی مخالفت


قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ چوہدری محمود بشیر ورک کا کہنا تھا کہ ملک کے دستور میں یہ چھوٹ تھی۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اراکین کی اکثریت نے غیر مسلموں پر شراب خریدنے یا پینے پر پابندی نا ہونے کے خلاف مجوزہ قانون کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اس کی ضرورت نہیں۔

کمیٹی کے سامنے یہ مسودہ نواز شریف انتظامیہ کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا محمد خان شیرانی اور چند اقلیتی قانون سازوں کی طرف سے پیش کیا گیا تاہم وزارت قانون نے اس بل کو بلا جواز، غیر ضروری اور غلط فہمی پر مبنی مسودہ قرار دیا۔

منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کمیٹی کے سربراہ چوہدری محمود بشیر ورک کا کہنا تھا کہ سخت مخالفت کے باوجود مولانا شیرانی کی درخواست پر اس بل پر بحث کو موخر کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جمعیت کے قانون ساز کہنا تھا کہ بل کو پیش کرنے والے دیگر اراکین پارلیمان کا موقف سن لیا جائے۔

’’ہم مسلمانوں پر تو پابندی لگا رہے ہیں۔ غیر مسلموں پر شاید یہ درست نا ہو گا۔ اگر انہیں مذہبی کسی دوسرے مقصد کے لیے ضرورت ہے تو ہم اس میں کیوں پڑیں۔ ان کو آزاد رہنے دیں۔‘‘

اس بل کو پیش کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ بظاہر ’’پاکستانی معاشرے میں انتشار پیدا کرنے کا اقدام لگتا ہے۔‘‘

حکمران جماعت کے قانون ساز بشیر ورک کا کہنا تھا کہ اس پابندی سے دنیا میں پاکستان کے بارے منفی سوچ کو تقویت ملے۔

پاکستان میں صرف غیر مسلم آبادی کو شراب کی خرید و فروخت اور اسے پینے کی چھوٹ حاصل ہے تاہم یہ تاثر عام ہے کہ مسلم آبادی کی بڑی تعداد بھی شراب استعمال کرتی ہے۔

مولانا شیرانی سے موقف حاصل کرنے کی کوششوں کے باوجود ان سے بات نا ہو سکی۔ علاوہ ازیں ان کی جماعت کے مرکزی ترجمان جان اچکزئی نے یہ کہہ کر تبصرہ کرنے سے انکار کیا کہ یہ بل مولانا شیرانی نے اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے پیش کیا تھا۔

’’اسلامی نظریاتی کونسل ہماری پارٹی کی تابع نہیں وہ ایک آزاد آئینی ادارہ ہے جس کا اپنا ترجمان ہو گا۔‘‘

حالیہ مہینوں میں اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے دوسری شادی سے متعلق اجازت اور کم عمری کی شادیوں کے متنازع امور پر تجاویز سامنے آئی تھیں جس پر حقوق نسواں اور انسانی حقوق کے تنظیموں کی طرف سے شدید ردعمل بھی سامنے آیا۔

مگر کونسل کے رکن طاہر اشرفی کا اس مجوزہ قانون کے بارے میں کہنا تھا کہ ’’میرا نہیں خیال یہ مسئلہ کبھی بحث یا رائے کے لیے ہمارے پاس آیا ہو۔‘‘

قائمہ کمیٹی کے رکن اور سابق جسٹس افتخار احمد چیمہ کا اس بارے میں کہنا تھا.

’’اس قسم کی قانون سازی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا پہلے وہ اعلانیہ پیتے تھے تو پھر چھپ کے پیں گے۔ جس نے جو کام کرنا ہے وہ کرتا رہے گا۔ ہم نے جو کام کرنے ہیں وہ تو ہم کرتے نہیں۔‘‘

حال ہی میں امریکہ میں قائم پیو ریسرچ سنٹر کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 66 فیصد آبادی مذہبی انتہا پسندی کو ملک کے لیے سنگین خطرہ سمجھتی ہے اور حکمران جماعت کے قانون ساز بشیر ورک کے بقول اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کا اس بل کے پیش کرنے میں عمل دخل کی ایک وجہ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے پیش نظر ان کا عدم تحفظ بھی ہو سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG