رسائی کے لنکس

بلوچستان: انسداد پولیو مہم کو موثر بنانے کے لیے قانون سازی پر غور


فائل فوٹو
فائل فوٹو

صوبائی وزیر صحت رحمت اللہ بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک مسودہ قانون تیار کیا گیا ہے جس میں ایسے والدین جو اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے سے انکار کریں گے ان کے لیے سزا تجویز کی گئی ہے

پاکستان کے پسماندہ ترین صوبے بلوچستان میں ماضی کی نسبت پولیو وائرس کے پھیلاؤ میں قابل ذکر حد تک قابو پا لیا گیا ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ صوبے سے اس موذی وائرس کے مکمل خاتمے کے لیے مزید اقدام کیے جا رہے ہیں۔

صوبائی وزیر صحت رحمت اللہ بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک مسودہ قانون تیار کیا گیا ہے جس میں ایسے والدین جو اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے سے انکار کریں گے ان کے لیے سزا تجویز کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بہت سے والدین آگاہی نہ ہونے اور ویکسین سے متعلق غلط تصورات کے باعث بچوں کو یہ قطرے نہیں پلواتے جنہیں متعلقہ حکام اور صحت کا عملہ دوبارہ رابطہ کر کے قائل کرتا ہے اور ان میں سے کچھ لوگ آمادہ بھی ہو جاتے ہیں۔

’’نیا بل ہم لا رہے ہیں ایک تو یہ ضروری ہوگا کہ بچوں کو اسکول میں داخل کروانے کے لیے پولیو ویکسین کارڈ ہو، بلکہ اب یہ بل خاص طور پر ان لوگوں کے لیے ہوگا جو قطرے پلوانے سے انکار کرتے ہیں۔‘‘

گزشتہ سال بلوچستان میں پولیو وائرس سے متاثرہ 25 کیسز رپورٹ ہوئے تھے لیکن رواں برس اب تک صرف پانچ کیس ہی سامنے آئے ہیں۔

بلوچستان میں پولیو کے خلاف پیر کو تین روزہ مہم شروع کی گئی ہے اور صوبائی وزیر کے بقول حالیہ مہینوں میں جس تواتر سے انسداد پولیو مہم جاری رکھی گئی یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ماضی کے برسوں کی نسبت پولیو سے متاثرہ بچوں کے کیسز کم رپورٹ ہوئے۔

رحمت اللہ بلوچ نے بتایا کہ پولیو کے پھیلاؤ میں ایک بڑا حصہ ایسے لوگوں کا ہے جو مختلف علاقوں میں نقل مکانی کرتے رہتے ہیں جن میں افغان باشندے بھی شامل ہیں۔

پاکستان اور افغانستان دنیا کے وہ دو ملک ہیں جہاں اب تک انسانی جسم کو مفلوج کر دینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح سے قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

ملک کے مختلف حصوں بشمول بلوچستان میں حالیہ برسوں میں انسداد پولیو کی ٹیموں پر ہلاکت خیز حملے بھی ہوتے رہے جس کی وجہ سے یہ مہم متاثر ہوتی رہی ہے۔

لیکن صوبائی وزیر صحت کا کہنا تھا کہ اب اس مہم سے وابستہ افراد کے لیے فول پروف سکیورٹی کا انتظام کیا گیا ہے جس سے توقع ہے کہ ایسے ناخوشگوار واقعات سے بچنے میں خاصی حد تک مدد ملے گی۔

انھوں نے ایک بار پھر اس تاثر کی نفی کی کہ پولیو سے بچاؤ کی ویکسین غیر اسلامی یا مضر صحت ہے۔ ان کے بقول بہت سے ممالک اس ویکسین کے استعمال سے اپنے ہاں اس موذی وائرس پر قابو پا چکے ہیں اور آنے والی نسلوں کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنے پانچ سال تک کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے ضرور پلوائیں۔

XS
SM
MD
LG