رسائی کے لنکس

سیاسی بے یقینی اور خدشات


پاکستان کی عدالت عظمٰی کی طرف سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو رواں سال جولائی کے اواخر میں منصب سے ہٹائے جانے کے بعد اور پھر نواز شریف کی طرف سے بظاہر جارحانہ بیانات کے بعد ملک میں جمہوری نظام کے بارے میں قیاس آرائیاں ہوتی آ رہی ہیں۔

نواز شریف تقریباً تین ہفتوں تک لندن میں قیام کے بعد جمعرات کو پاکستان واپس پہنچے اور جمعہ کو احتساب عدالت میں بھی پیش ہوئے۔

حکمران جماعت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم قانون کا احترام کرتے ہوئے عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔

تاہم ملک میں مختلف سیاسی جماعتوں کے قانون سازوں کا کہنا ہے کہ اس بے یقینی کی صورت حال کا خاتمہ ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔

حزب مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر رحمٰن ملک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ بھی یہ ہی سمجھتے ہیں کہ سیاسی تقسیم کے باعث حالات ٹھیک نہیں ہیں۔

’’جب سیاسی تقسیم اس حد تک پہنچ جائے جو آج آپ دیکھ رہے ہیں تو اس کے حالات ٹھیک نہیں ہوتے اور جب بیٹھی ہوئی حکومت اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کرے گی تو اس کا نتیجہ ماضی میں آپ نے دیکھا اچھے نہیں ہوا۔۔۔ میں نے پارلیمینٹ ہاؤس میں آن دی فلور آف دی ہاؤس کہا ہے کہ یہ حکومت محاذ آرائی کرنا چھوڑ دے، اگر نہیں کرے گی تو جمہوریت کا جہاز مجھے پاش پاش ہوتے ہوئے نظر آ رہا ہے۔‘‘

قومی وطن پارٹی کے رہنما آفتاب احمد شیر پاؤ کہتے ہیں کہ بے یقینی کی صورت حال سے ملک کو نقصان ہو رہا ہے۔

’’بے یقینی کی صورت حال تو ہے جسے ہر ایک یہ محسوس کر رہا ہے اور مایوس ہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے آپ اسٹاک ایکسچینج کو دیکھ لیں۔۔۔۔ جب ملک میں ایسی صورت حال ہو تو سرمایہ کاری نہیں ہو گی کوئی ترقی نہیں ہو گی تو یہ صورت حال میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے لیے نقصان دہ ہے۔‘‘

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے والی رکن قومی اسمبلی زیب جعفر کہتی ہیں کہ اُن کی جماعت کسی طرح کا دباؤ برداشت نہیں کرے گی۔

’’دیکھیں جی سازشیں کب نہیں ہوئیں سیاست میں ہمیشہ سے رہی ہیں اور ہمیشہ سے پریشر بلڈ اَپ رہا ہے لیکن کبھی بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کسی قسم کا دباؤ اپنے اوپر نہیں آنے دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں کسی چیز کے خدشات ہیں یہ جو جمہوری سیٹ اَپ اپنا وقت مکمل کرے گا۔‘‘

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم خدشات کے باوجود عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں جس سے اُن کے بقول یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف اداروں سے ٹکراؤ نہیں چاہتے۔

XS
SM
MD
LG