رسائی کے لنکس

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون میں لفظی جنگ کا آغاز


ناقدین کا کہنا ہے کہ جہاں پوری دنیا کی نظریں پارلیمنٹ کےمشترکہ اجلاس پر لگی ہوئی ہیں تو وہیں بڑی سیاسی جماعتوں کی غیر سنجیدگی ملک کے اندرونی و بیرونی مسائل میں مزید اضافے کا سبب بن سکتی ہے

پاکستان میں حکمراں جماعت پیپلزپارٹی اور اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کے درمیان ان دنوں لفظی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ صدر آصف علی زرداری یا بلاول بھٹو جو بیان دیتے ہیں مسلم لیگ ن کی جانب سے اس پر نہ صرف سخت الفاظ کہے جاتے ہیں بلکہ ان الفاظ کے بدلے پی پی کو ایک مرتبہ پھر اس کا ”تیکھے“ انداز میں جواب دینا پڑتا ہے، اور یوں الفاظ کی جنگ زور پکڑتی جارہی ہے۔

صدر آصف علی زرداری کا لاہور میں پڑاوٴاور وہاں سے جاری بیان اور پھر اس پر رد عمل جلتی پر مزید تیل کا کام کر رہے ہیں۔ مبصرین کے نزدیک بے پناہ مسائل میں گھرے ملک میں جہاں خارجہ پالیسی جیسا اہم موضوع زیر بحث ہے وہاں سیاسی قیادت کاغیر سنجیدہ رویہ ملک کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا تھاکہ ”سپریم کورٹ بھٹوکے عدالتی قتل پر معافی مانگے “۔ صدر زرداری نے اظہار افسوس کیا کہ ” سپریم کورٹ نے 33 سال بعد بھی بھٹو کیس میں لگنے والا دھبہ نہیں مٹایا جبکہ رینٹل پاورپر فیصلہ تین ماہ میں آ گیا “۔” وزیراعظم کو تخت لاہور کی جانب سے جنوبی پنجاب الگ کرنے کی سزا دی جا رہی ہے “۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن رہنما چوہدری نثار علی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جہاں بلاول بھٹو اور صدر زرداری کے گڑھی خدا بخش میں بیانات پر تنقید کی وہیں صدر آصف علی زرداری کے دورہ ٴبھارت پر بھی شدید تحفظات کا اظہا رکیا۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ بھارت اپنی کرکٹ ٹیم کو پاکستا ن نہیں بھیجتا تو یہاں کا صدر کیسے بن بلائے جا سکتا ہے۔ بھارت سے تعلقات حساس نوعیت کے ہیں انہیں غیر رسمی دوروں کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ اس پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ صدر کا یہ نجی دورہ ہے۔

ادھر صدر آصف علی زرداری نے اجلاس کے فورا ً بعد گڑھی خدا بخش سے اس دھرتی کا رخ کیا جہاں آج تک پیپلزپارٹی کیلئے حکمرانی کرنا ایک خواب بنا ہوا ہے۔ وہاں پہنچتے ہی الفا ظ کی ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہو گئی۔ جمعرات کو گورنر ہاوٴس میں پارٹی عہدیداران سے خطاب میں انہوں نے مسلم لیگ ن کی قیادت کو پہلی مرتبہ ہوم گراوٴنڈ (لاہور) پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ صد رکا کہنا تھا کہ شریف برادران کی جو چمک ہے ان ہی کی دی ہوئی ہے او ر وہ جب چاہیں اسے چھین سکتے ہیں۔ آئندہ لاہو ر پر حکمرانی پیپلزپارٹی کی ہو گی ، شریف بردران تو خود یہاں کشمیر سے آئے ہوئے مہاجر ہیں ، ان کے پاس اتنے آدمی بھی نہیں تھے کہ وہ والد کا جنازہ پڑھا سکتے۔

پیپلزپارٹی کی قیادت کے اس رویہ کے خلاف مسلم لیگ ن کے رہنما بھی کھل کرمیدان میں آ گئے۔ مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری کی ساری چمک دھمک سیاہ دھن اور لوٹ مار کی ہے۔ آصف زرداری نے ثابت کر دیا کہ وہ پہلے شریک چیئرمین اور پھر صدر ہیں۔ وہ بھول چکے ہیں کہ ان کے سسر کی نمازہ جنازہ میں پندرہ افراد تھے۔

پیپلزپارٹی کی جانب سے الفاظ کی جنگ میں وزیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ، راجہ ریاض اور صفدر وڑائچ پیش پیش ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے رانا ثنا اللہ اور چوہدری نثار سرگرم عمل ہیں۔

دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان مذکورہ تناوٴ کو مبصرین ملک کیلئے انتہائی سنگین قرار دے رہے ہیں۔ایک جانب تو پاک امریکا تعلقات ، نیٹو سپلائی اور خارجہ پالیسی سے متعلق پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی سفارشات کوحتمی شکل دینے کی کوشش کر رہی ہے تو وہیں اس میں موجود اراکین کی قیادت آپس میں الجھاوٴ کا شکار ہے۔پوری دنیا کی نظریں پارلیمنٹ کےمشترکہ اجلاس پر لگی ہوئی ہیں تو وہیں بڑی سیاسی جماعتوں کی غیر سنجیدگی ملک کے اندرونی و بیرونی مسائل میں مزید اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG