رسائی کے لنکس

پارلیمانی کمیٹی پر اتحادیوں کے تحفظات


پارلیمانی کمیٹی پر اتحادیوں کے تحفظات
پارلیمانی کمیٹی پر اتحادیوں کے تحفظات

کمیٹی میں قومی اسمبلی کی نمائندگی سندھ سے آفتاب شعبان میرانی اور خیبر پختون خواہ سے عاصمہ ارباب عالمگیر جبکہ سینٹ کی نمائندگی پنجاب سے نئیر حسین بخاری اور بلوچستان سے صابر بلوچ کریں گے۔ اِن چاروں ارکان کا تعلق حکمران پیپلز پارٹی سے ہے جن کے ناموں کا اعلان صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے درمیان منگل کو ہونے والی ایک ملاقات کے بعد کیا گیا۔

اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت سپریم کورٹ میں ججووں کی تقرری کے لیے آٹھ رُکنی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے لیکن اس میں حکومت کی نمائندگی کرنے والے چاروں ارکان کی نامزدگی روز اول سے ہی بظاہر متنازع بن گئی ہے۔

کمیٹی میں قومی اسمبلی کی نمائندگی سندھ سے آفتاب شعبان میرانی اور خیبر پختون خواہ سے عاصمہ ارباب عالمگیر جبکہ سینٹ کی نمائندگی پنجاب سے نئیر حسین بخاری اور بلوچستان سے صابر بلوچ کریں گے۔ اِن چاروں ارکان کا تعلق حکمران پیپلز پارٹی سے ہے جن کے ناموں کا اعلان صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے درمیان منگل کو ہونے والی ایک ملاقات کے بعد کیا گیا۔

لیکن مخلوط حکومت میں شامل عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور جمعیت علماء اسلام (ف) نے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کو مسترد کرتے ہوئے اس کی بھرپور مخالفت کا عزم کیا ہے۔ تینوں جماعتوں کے رہنماﺅں نے ذرائع ابلاغ کو دیے گئے بیانات میں الزام لگایا ہے کہ کمیٹی میں حکومتی ارکان کی نامزدگیوں پر پیپلز پارٹی نے اُنھیں اعتماد میں نہیں لیا ہے۔

ایم کیو ایم کے سینیٹر بابر غوری نے اسے ”یک جماعتی کمیٹی ” قرار دیتے ہو ئے کہا ہے کہ ”ماضی کے کئی فیصلوں کی طرح پیپلز پارٹی نے اس معاملے پر بھی ہماری جماعت سے کوئی صلاح و مشورہ نہیں کیا“۔

اے این پی کے سینٹر زاہد خان نے کہا ہے کہ اُن کی جماعت ججووں کی تقرری کے معاملے پر حکومت کی حمایت نہیں کرے گی اور”اب تمام تر نتائج کی ذمہ دار خود پیپلزپارٹی ہوگی“۔

مولانا فضل الرحمن اور اے این پی کے رہنما اسفند یار ولی (فائل فوٹو)
مولانا فضل الرحمن اور اے این پی کے رہنما اسفند یار ولی (فائل فوٹو)

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی پارلیمانی کمیٹی کو ”پیپلز پارٹی کا شو“ قرار دیا ہے۔ اُن کے بقول چاروں ارکان حکمران پارٹی کے نامزد کرنے سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ حکومت ریاستی اداروں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے۔

صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی میں حزب اقتدار کے نمائندوں کی نامزدگی کرتے وقت اس میں تمام صوبوں اور خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ تاہم اُنھوں نے حکومت کی اتحادی جماعتوں کو کمیٹی میں شامل نہ کرنے کی وضاحت نہیں کی ہے۔

پارلیمانی کمیٹی میں حزب اختلاف کی نمائندگی کرنے والے قومی اسمبلی اور سینٹ کے ارکان کے ناموں کا گزشتہ ہفتے کیا گیا تھا ۔ ان میں مسلم لیگ (ق) کے صدر سینیٹر چودھری شجاعت حسین اور مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اسحاق ڈار جبکہ قومی اسمبلی کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کے سردار مہتاب عباسی اور مسلم لیگ (ق) کے غوث بخش مہر شامل ہیں۔

آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ اور دیگر اعلیٰ عدالتوں میں ججووں کی تقرری کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک سات رکنی عدالتی کمیشن ججووں کے نام تجویز کرے گا اور پارلیمانی کمیٹی چودہ روز کے اندر دو تہائی اکثریت سے ان نامزدگیوں کو منظور یا مسترد کرنے کی پابند ہوگی۔ اگر کمیٹی مقررہ مدت میں کوئی فیصلہ کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو عدالتی کمیشن کی طرف سے بھیجی گئی نامزدگیوں کو حتمی سمجھا جائے گا۔ لیکن اگر کمیٹی دو تہائی اکثریت سے کسی نامزدگی کو مسترد کرتی ہے تو ٹھوس وجوحات کے ساتھ اُسے واپس چیف جسٹس کو بھیجا جائے گا۔ لیکن اگر چیف جسٹس ان وجوحات پر غور کے بعد بھی عدالتی کمیشن کی نامزدگی کی سفارش کرے تو اُس جج کی تقرری کو مان لیا جائے گا۔

سرکاری اعلان کے مطابق آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس 22 نومبر کو ہوگا جس میں عدالتی کمیشن کی طرف سے جسٹس اعجاز احمد چودھری کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کرنے کا معاملہ زیر بحث آئے گا۔ لاہور ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس خواجہ محمد شریف 8 دسمبر کو اپنی مدت پوری کرلیں گے۔

XS
SM
MD
LG