رسائی کے لنکس

ق لیگ سے اتحاد خارج از امکان نہیں: رہنما ن لیگ


مسلم لیگ ن کا پارٹی اجلاس (فائل فوٹو)
مسلم لیگ ن کا پارٹی اجلاس (فائل فوٹو)

مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا کا کہنا تھا کہ ان کے قائد نواز شریف کی ق لیگ سے کوئی ’ذاتی رنجش‘ نہیں ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کی پارٹی کو مضبوط بنانے کی خواہش کے پیش نظر ق لیگ کے ساتھ اتحاد خارج از امکان نہیں۔

وائس آف امریکہ سے اتوار کو گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف مسلم لیگی دھڑوں کا اتحاد چاہتے ہیں اور اس بنیاد پر ’’اسٹیس مین شپ‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام رہنماؤں کو پی ایم ایل این میں شمولیت کی دعوت دے رکھی ہے۔

’’میاں صاحب نے جو بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے اس میں اسے رول آؤٹ نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔اس وقت جو ملک کو چیلنجز کا سامنا ہے اس میں میاں صاحب کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے تاکہ قومی مفاد یا پالیسی پر اگر کوئی فیصلہ کرنا ہو تو کوئی دقت نا پیدا ہو یا کوئی ہمیں بلیک میل نا کر سکے۔‘‘

تاہم ان کے بقول ان کی جماعت کے اجلاس میں اب تک یہ معاملہ زیر بحث نہیں آیا۔ اقبال جھگڑا کا کہنا تھا کہ ان کے رہنما کی مسلم لیگ قائداعظم کی قیادت سے ’’کوئی ذاتی رنجش‘‘ نہیں۔
11 مئی کے عام انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن نا صرف وفاق اور دو صوبوں میں اپنی حکومتوں کو بلکہ پارٹی کو مضوبوط بنانے کی بھی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔

سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کی نواز لیگ میں شمولیت کے بعد سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم بھی اتوار کو اپنی جماعت پیپلز مسلم لیگ کو ن لیگ میں ضم کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔

گزشتہ روز ہی سندھ کے بااثر سیاست دان اور مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگاڑا سید صبغت اللہ راشدی نے پی ایم ایل این کی وفاق میں حکومت میں شرکت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں کو یکجا کرنے کی ہر ممکن کوششیں کی جائیں گی۔

ادھر پاکستان مسلم لیگ قائداعظم نے بھی اپنے ایک اجلاس میں سابق حکومتی اتحاد کا حصہ بننے کے فیصلے کو غلطی قرار دیتے ہوئے آئندہ پاکستان پیپلز پارٹی سے کسی قسم کا اتحاد نا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں جماعت کے سیکرٹری اطلاعات کامل علی آغا کا کہنا تھا کہ ان کی قیادت اور جماعت مسلم لیگی دھڑوں کے اتحاد کے حق میں ہے۔

’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تمام مسلم لیگی دھڑے اکٹھے ہوں۔ مگر اگر آپ مثال جناب جمالی یا ارباب کی دیں گے تو میرے خیال میں ان کے لئے کسی جماعت میں آنا یا چھوڑ دینا معیوب نہیں۔ ہاں پیر پگاڑا صاحب کی طرف سے اگر بات آئی ہے تو اسے سنجیدگی سے لینا چاہئے اور اگر انہوں نے ایسی کوئی دعوت دی تو ہم سنجیدگی سے اسے دیکھیں گے۔‘‘

تاہم کامل علی آغا کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف کی جانب سے غیر لچکدار رویے کی وجہ سے مختلف اوقات میں کوششوں کے باوجود مسلم لیگی دھڑوں میں اتحاد نا ہو سکا اور بظاہر اس وقت بھی مشکل ہے۔

مسلم لیگ ق سابق پاکستان پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کا حصہ رہی اور اس سے پہلے 1999ء میں میاں نواز شریف کا تحتہ الٹنے کے بعد اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف کی بھی اتحادی رہ چکی تھی۔

پاکستان مسلم لیگ ن وفاق کے علاوہ بلوچستان اور پنجاب میں حکومت بنانے جارہی ہے جبکہ خیبر پختونخواہ اور سندھ میں میاں نواز کی جماعت حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھے گی۔ پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ نے اتوار کو صحافیوں کو بتایا کہ صوبے کے منتخب وزیراعلیٰ چھ جون کو حلف اٹھائیں گے۔
XS
SM
MD
LG