رسائی کے لنکس

کیا پاکستان انگلستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے لیے تیار ہے؟


آئرلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میں فتح حاصل کرنے کے بعد پاکستانی ٹیم۔ فائل فوٹو
آئرلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میں فتح حاصل کرنے کے بعد پاکستانی ٹیم۔ فائل فوٹو

محمد عامر کو تمام فارمیٹس میں بہت زیادہ میچوں میں کھلایا جا رہا ہے۔ لہذا، ماہرین کو تشویش ہے کہ اس سے اُن کی فٹنس مزید بگڑ سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹیم منیجمنٹ کو دیکھنا ہوگا کہ اُنہیں کتنا استعمال کیا جائے تاکہ وہ فٹنس کے مسائل سے دوچار نہ ہوں

پاکستان نے آئرلینڈ کے خلاف ڈبلن میں کھیلا گیا واحد ٹیسٹ پانچ وکٹوں سے جیت لیا۔ تاہم، انگلینڈ کے خلاف 24 مئی سے شروع ہونے والی دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے تناظر میں اگر آئرلینڈ کے خلاف کھیلے گئے ٹیسٹ کے دوران باؤلنگ، بیٹنگ اور فیلڈنگ سمیت تمام شعبوں میں پاکستان کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن پر پاکستانی ٹیم اور مینجمنٹ کو غور کرنا ہوگا۔

سب سے پہلے تو فیلڈنگ کا شعبہ ہے۔ حسبِ معمول دونوں اننگز کے دوران پاکستانی ٹیم کی فیلڈنگ غیر معیاری رہی۔ کپتان سرفراز احمد نے بھی دو اہم کیچ ڈراپ کر دئے۔ اس کے علاوہ سلپ میں بھی متعدد آسان کیچ پکڑے نہ جا سکے۔ آئرلینڈ کی ٹیم کو فالو آن پر مجبور کرنے کے بعد اُس کے دونوں اوپننگ بیٹسمینوں کے شروع ہی میں کیچ ڈراپ کرکے اُنہیں میچ میں واپس آنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ یہ دونوں کیچ ڈراپ ہونے کا نقصان ایک مرتبہ پھر محمد عامر کو ہوا جو مزید کم از دو یقینی وکٹوں سے محروم رہے۔

باؤنڈری پر بھی خراب فیلڈنگ دیکھنے کو ملی جب متعدد بار گیند روکنے کی بجائے گیند کو باؤنڈری کے باہر جانے دیا گیا۔

سرفراز احمد کی وکٹوں کے پیچھے کارکردگی بھی خاصی مایوس کن رہی۔ اُنہوں نے کم از کم تین کیچ ڈراپ کئے۔ یہ خاص طور پر اس لئے بھی پریشان کن ہے کہ وہ بیٹنگ میں بھی کوئی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے ہیں۔ وہ ٹیم کے کپتان ہیں اور اگر وکٹ کیپر کی حیثیت سے بھی سوال اُٹھنے لگے تو پاکستانی کیمپ کیلئے اُن کی کارکردگی کے بارے میں پریشانی بڑھے گی۔

فیلڈنگ کے حوالے سے یہ بات دلچسپ ہے کہ موجودہ فیلڈنگ کوچ سٹیو رکسن کا یہ پاکستانی ٹیم کے ساتھ آخری دورہ ہے۔ اُنہوں نے یقینی طور پر ٹیم کی فیلڈنگ بہتر بنانے کیلئے محنت کی ہے۔ تاہم، اُن کے خیرباد کہنے سے مستقبل میں کرکٹ بورڈ کو اُن کے متبادل کیلئے فیصلہ کرنا ہوگا۔

محمد عامر پاکستان کے سٹرائیک بالر ہیں۔ تاہم، اس ٹیسٹ میچ کے دوران دیکھا گیا کہ وہ دائیں گھٹنے کی تکلیف کے باعث پوری استعداد کے مطابق بالنگ نہ کر پائے اور اُنہیں متعدد موقعوں پر گراؤنڈ سے باہر جانا پڑا۔ یوں اگر اُن کی فٹنس ٹھیک نہ رہی تو ہو سکتا ہے کہ وہ انگلینڈ کے خلاف ہونے والے دونوں ٹیسٹ میچوں کیلئے دستیاب نہ ہوں۔

محمد عامر کو تمام فارمیٹس میں بہت زیادہ میچوں میں کھلایا جا رہا ہے۔ لہذا، ماہرین کو تشویش ہے کہ اس سے اُن کی فٹنس مزید بگڑ سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹیم منیجمنٹ کو دیکھنا ہوگا کہ اُنہیں کتنا استعمال کیا جائے تاکہ وہ فٹنس کے مسائل سے دوچار نہ ہوں۔

پیس بالنگ شعبے میں پاکستانی ٹیم کو دستیاب بالرز پر نظر دوڑائی جائے تو محمد عامر کی دستیابی اور بھی زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔ محمد عباس نے اس ٹیسٹ میچ میں ثابت کیا ہے کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ کیلئے ایک اچھے بالر ثابت ہو سکتے ہیں۔ اُن کا اکانومی ریٹ بھی اچھا ہے۔ جب سے اُنہیں ٹیسٹ کیپ دی گئی ہے، اُنہوں نے عامر سے زیادہ وکٹیں حاصل کی ہیں۔ یوں وہ محمد عامر کے ساتھ ملکر نئے بال کیلئے ایک اچھے ساتھی کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔ تاہم، مسئلہ تیسرے تیز بالر کا ہے اور اس کیلئے فی الحال صورت حال واضح نہیں ہے۔

پاکستان نے اب تک زیادہ ٹیسٹ میچ متحدہ عرب امارات میں کھیلے ہیں جہاں تیسرے فاسٹ بالر کی ضرورت زیادہ نہیں محسوس کی گئی اور سپنر اپنا کردار بخوبی ادا کرتے رہے ہیں۔ تاہم، انگلیند کی تیز وکٹوں کیلئے تیسرے فاسٹ بالر کی اشد ضرورت ہوگی۔ وہاب ریاض، عمران خان اور سہیل خان اس ٹیم کا حصہ نہیں ہیں۔ یوں اس رول کیلئے حسن علی اور راحت علی ہی دستیاب ہیں۔ حسن علی نے ابھی صرف دو ٹیسٹ کھیلے ہیں۔ لہذا، ٹیسٹ کرکٹ میں اُن کا تجربہ زیادہ نہیں ہے۔ دوسری جانب آئرلینڈ کے خلاف کھیلے گئے ٹیسٹ میں راحت علی کی کارکردگی غیر متاثر کن رہی۔ اُنہوں نے گزشتہ دو برسوں کے دوران کوئی فرسٹ کلاس میچ بھی نہیں کھیلا۔ لہذا، اُن کو ردھم میں آنے کیلئے مزید وقت درکار ہوگا۔

یوں توقع ہے کہ انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ سے قبل لیسسٹرشائر کے خلاف ہونے والے پریکٹس میچ میں محمد عامر کو آرام دے کر حسن علی اور راحت علی کو کھلا کر اُن کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔

البتہ آئرلینڈ کے خلاف ڈیبیو کرنے والے فہیم اشرف کی بالنگ بری نہیں رہی۔ بیٹنگ میں اُنہوں نے پہلی اننگ میں 83 رنز بنائے۔ یوں پیس آل راؤنڈر کے طور پر اُن کی ٹیم میں موجودگی اہم ہو سکتی ہے۔

پاکستانی ٹیم کیلئے ایک بڑی پریشانی بیٹنگ میں ٹاپ آرڈر کی مسلسل ناکامی ہے۔ خاص طور پر تجربہ کار بیٹسمین اظہر علی اب تک کھیلی گئی تمام اننگز میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ اگرچہ امام الحق نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک قابل اعتماد اوپنر بن سکتے ہیں، ٹاپ آرڈر میں دیگر تمام بیٹسمین ابھی تک قابل رشک کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے ہیں۔ یوں اظہر علی کا جلد فارم میں آنا پاکستان کیلئے ناگزیر ہو گا۔

24 مئی سے شروع ہونے والے ٹیسٹ کیلئے انگلینڈ نے اپنے 12 کھلاڑیوں کیا اعلان کر دیا ہے۔ جوس بٹلر کو ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔ اُنہوں نے اس سے پہلے اپنا آخری ٹیسٹ 2016 میں بھارت کے خلاف کھیلا تھا۔ اس ٹیسٹ کیلئے انگلینڈ کی ٹیم ان کھلاڑیوں پر مشتمل ہو گی:

جو روٹ (کپتان)، جیمز اینڈرسن، جونی بیئر سٹو (وکٹ کیپر بیٹسمین)، ڈوم بیس، سٹوئرٹ براڈ، جوس بٹلر، ایلسٹیئر کُک، ڈیوڈ ملان، بین سٹوکس، مارک سٹون مین، کرس ووکس اور مارک ووڈ۔

XS
SM
MD
LG