رسائی کے لنکس

پاکستان میں سیاسی تشدد اور حادثات کی تاریخ


پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو 1951 میں قتل کیا گیا تھا۔
پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو 1951 میں قتل کیا گیا تھا۔

پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے حکومت کے خلاف لانگ مار چ میں فائرنگ کے واقعے کو ان کی جماعت تحریکِ انصاف قاتلانہ حملہ قرار دے رہی ہے۔

عمران خان نے وزیرِ اعظم شہباز شریف، وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ اور ملک کی طاقت ور تصور ہونے والی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی میں کاؤنٹر انٹیلی جنس کے سربراہ میجر جنرل فیصل نصیر کو اس واقعے کا ذمے دار قرار دیا ہے۔

حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے جب کہ تحریکِ انصاف کے رہنما فائرنگ کے واقعے کو سازش قرار دے رہے ہیں۔

اس کیس سے متعلق ملزم کے اعترافی بیان اور ابتدائی تفتیش کے بعد تاحال ایسے حقائق سامنے نہیں آسکے ہیں جن کی بنیاد پر اسے کوئی سوچا سمجھا منصوبہ یا سازش قرار دیا جاسکے۔ تاہم پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اہم سیاسی رہنماؤں کے قتل اور سیاسی تشدد کی ایک طویل تاریخ ہے۔ سیاسی تشدد کا نشانہ بننے والوں میں سابق وزرائے اعظم، گورنر اور کئی سیاسی رہنماؤں کے نام آتے ہیں۔

بے نظیر بھٹو کا قتل

دو مرتبہ وزیرِ اعظم رہنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 کو قتل کیا گیا۔ وہ اپنے قتل سے کچھ ہی ماہ قبل طویل جلا وطنی کے بعد وطن واپس آئی تھیں۔ ان پر پہلا حملہ ان کی وطن واپسی کے موقعے پر کراچی میں نکالی گئی استقبالی ریلی میں ہوا تھا جس میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

کراچی میں ہونے والے حملے میں بے نظیر محفوظ رہیں لیکن اسی برس 27 دسمبر کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کے بعد ہونے والی فائرنگ اور خود کُش دھماکے میں وہ جانبر نہ ہوسکیں۔

اسی روز سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی اسلام آباد ایکسپریس وے پر ہونے والی انتخابی ریلی میں فائرنگ سے چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

بے نظیر کی ہلاکت اس وقت ہوئی تھی جب وہ عام انتخابات کے لیے مہم چلا رہی تھیں۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف ملک کے صدر تھے۔

صدر مشرف کے دور حکومت میں بے نظیر بھٹو پر ہونے والے حملوں کے علاوہ وکلا تحریک کے دوران 12 مئی 2007 کو کراچی میں معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کے استقبال کے لیے نکالی جانے ریلیوں میں بھی مسلح افراد کے تصادم سے متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔

مرتضی بھٹو کی ہلاکت

بیس ستمبر 1996 میں بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضی بھٹو بھی ایک پولیس مقابلے میں اپنے چھ ساتھیوں سمیت ہلاک ہوئے تھے۔ اس وقت ملک میں بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی۔

مرتضی بھٹو اپنے والد اور سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پاکستان سے باہر چلے گئے تھے۔ جہاں انہوں ںے اپنے بھائی شاہنواز بھٹو کے ساتھ مل کر ’الذوالفقار‘ نامی تنظیم تشکیل دی تھی۔

یہ تنظیم طیارہ اغوا کرنے اور سیاسی مخالفین کو قتل کرنے جیسے واقعات میں ملوث رہی۔ مرتضی بھٹو نے پاکستان واپس آنے کے بعد مختلف مقدمات کا سامنا بھی کیا۔

انہوں نے سیاسی اختلافات کی بنیاد پر اپنی بہن بے نظیر بھٹو سے اپنی راہیں جدا کر کے علیحدہ سیاسی جماعت بنا لی تھی۔

سن 1996 میں پولیس مقابلے میں مرتضی بھٹو کی ہلاکت سے متعلق کئی اہم سوالات کے جواب سامنے نہیں آسکے ہیں۔ ان سے قبل ان کے بھائی شاہنواز کی بھٹو کی موت بھی پر اسرار حالات میں ہوئی۔ وہ 18 جولائی 1985 کو فرانس میں اپنے فلیٹ میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔

صدر ضیاء الحق کے طیارے کا حادثہ

پاکستان کے فوجی حکمران صدر جنرل ضیا ء الحق کا سی 130 طیارے کو 17 اگست 1988 کو پرُاسرار حادثہ پیش آیا۔ اس حادثے میں ان کے ساتھ افواج پاکستان کے چیف آف جوائنٹس اسٹاف کمیٹی جنرل اختر عبدالرحمان، فوجی افسران اور پاکستان میں امریکہ کے سفیر آرنلڈ رافیل سمیت کئی اہم عسکری حکام کی بھی ہلاکت ہوئی۔

جنرل ضیاء الحق کے قتل کے بارے میں کئی سازشی نظریات تو پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے طیارے کو حادثہ اس دھماکہ خیز یا زہریلے مواد کی وجہ سے پیش آیا جو آموں کی پیٹی میں چھپا کر طیارے میں رکھا گیا تھا۔

البتہ یہ حادثہ اور اس میں ملک کے طاقت ور ترین تصور ہونے والے حکمران کی موت آج تک معمہ ہے۔

جنرل ضیاء الحق نے 1979 میں اس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ جس کے بعد وہ اپنی موت کے وقت تک اقتدار میں رہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو 1970 کے انتخابات میں اس وقت کے مغربی پاکستان میں سب سے زیادہ نشستیں لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔

سن 1971 میں ملک دو لخت ہونے کے بعد وہ پاکستان کے وزیرِ اعظم بنے اور اس وقت کے فوجی صدر یحییٰ خان کو اقتدار سے بے دخل کرکے پہلے صدر اور بعدازاں وزیرِ اعظم بنے۔انہیں پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین عوامی رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے 1976 میں قبل از وقت انتخابات منعقد کیے جس میں وہ کامیابی حاصل کرنے میں تو کامیاب رہے تاہم اپوزیشن کی جماعتوں نے دھاندلی کا الزام لگا کر نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کے پاکستان قومی اتحاد نے احتاجی تحریک شروع کردی۔ اس تحریک کے دوران ذوالفقار علی بھٹو پر بھی اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے الزامات عائد کیے گئے۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا اور یہ بات چیت نتیجہ خیز ہونے سے قبل ہی آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کردیا۔

مارشل لا کے نفاذ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا مقدمہ چلایا گیا اور 1979 میں متنازع عدالتی کارروائی کے بعد انہیں پھانسی دے دی گئی۔

اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں پھانسی دی گئی تھی لیکن اسے پاکستانی تاریخ میں سیاسی و عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے۔

پہلے وزیرِ اعظم کا قتل

پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 کو روالپنڈی میں سید اکبر نامی حملہ آور نے گولی مار کر قتل کردیا تھا۔ قتل کے بعد حملہ آور بھی مارا گیا تھا۔

پاکستان کی ابتدائی سیاسی تاریخ میں جاری محلاتی سازشوں کی وجہ سے لیاقت علی خان کے قتل کو سیاسی محرکات کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود اس قتل کی تحقیقات کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آسکی ہیں۔

لیاقت علی خان ملک کے پہلے وزیرِ اعظم اور پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے قریبی ساتھی تھی۔ مؤرخین کے مطابق ان کے قتل کے بعد پاکستان کی سیاست میں عسکری اور سول بیوروکریسی کا عمل دخل بڑھا اور بالآخر 1958 پاکستان کے قیام کے محض 11 برس بعد ملک میں پہلا مارشل لا نافذ ہوگیا۔

یہ مارشل لا اگرچہ اس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے نافذ کیا تھا تاہم آئین معطل ہونے کے بعد وہ بے دست و پا ہوگئے اور فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

اس کے علاوہ حالیہ سیاسی تاریخ میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر، پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی، عوامی نیشنل پارٹی کے بشیر احمد بلور اور ان کے بیٹے ہارون بلور، پنجاب کے وزیرِ داخلہ شجاع خانزادہ، مولانا سمیع الحق اور کئی دیگر رہنما بھی قتل ہو چکے ہیں۔

اس میں شامل مواد خبر رساں ادارے رائٹرز سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG