رسائی کے لنکس

قومی مسائل کے پائیدار حل کے لیے قانون سازی کا عزم


پیپلز پارٹی کے نیئر حسین بخاری (دائیں) سینیٹ کے چیئرمین کا حلف اُٹھا رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے نیئر حسین بخاری (دائیں) سینیٹ کے چیئرمین کا حلف اُٹھا رہے ہیں۔

پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے نئے اراکین نے موثر قانون سازی کے ذریعے قومی مسائل کا پائیدار حل تلاش کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

اسلام آباد میں پیر کو 54 نو منتخب سینیٹرز نے ایوان بالا کی رکنیت کا حلف اُٹھایا، جس کے بعد حکمران پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے نیئر حسین بخاری اور صابر بلوچ کو بلا مقابلہ سینیٹ کا نیا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین منتخب کر لیا گیا۔

نئے چیئرمین کی زیرِ صدارت سینیٹ کے پہلے اجلاس میں اراکین نے اپنی تقاریر میں ایوان کی توجہ ملک کو درپیش سنگین مسائل کی طرف دلائی، جن میں بلوچستان کی صورت حال سرِ فہرست رہی۔

پاکستان کے اس شورش زدہ صوبے سے تعلق رکھنے والے نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ اب پارلیمان کی بالادستی ثابت کرنے کا وقت آ گیا ہے اور سیاسی قیادت کو اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔

’’کیا (ہم) خارجہ پالیسی کو کابینہ اور پارلیمنٹ کے تابع کر پائیں گے یا نہیں، کیا ہم خفیہ اداروں کے سیاسی سیل کو برقرار رکھ سکتے ہیں، کیا ہم بلوچستان اور فاٹا (وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں) میں گرتی ہوئی لاشوں کو روک سکتے ہیں یا نہیں؟‘‘

اُنھیں نے اُمید ظاہر کی کہ بلوچستان سمیت تمام قومی مسائل کو حل کرنے میں پارلیمان اپنا کردار ادا کرے گی۔

حکمران اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے حاصل بزنجو کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان کی تقدیر کے فیصلے سیاسی قیادت نے کرنے ہیں‘‘۔

مشاہد حسین نے بھی مسئلہ بلوچستان کے حل کو اوالین ترجیح دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی مرتب کردہ اُس رپورٹ پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا جس کی تیاری میں خود اُنھوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

سینیٹر مشاہد حسین سید
سینیٹر مشاہد حسین سید

’’بلوچستان کے مسئلے ڈنڈے سے نہیں مذاکرات سے حل ہوں گے اور ہمیں ہر کسی سے بات کرنا ہو گی ... اگر ہندوستان سے ہم بات کر سکتے ہیں، کبھی کبھی اسرائیل سے بھی خفیہ مذاکرات ہو جاتے ہیں، تو ہم اپنے ہی لوگوں سے کیوں بات چیت نہیں کر سکتے؟‘‘

حکمران پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے بھی اپنی تقریر میں بلوچ عسکری تنظیموں کو مذاکرات کی میز پر لانے کی حمایت کی۔

’’ہمیں اُن سے بات چیت کرنی چاہیئے ... جب تک ہم اُن بچوں، نوجوانوں اور بزرگوں کے ساتھ بات چیت نہیں کریں گے جو پہاڑیوں پر چڑھ گئے ہیں، جب تک اُن سے ہتھیار مذاکرات سے نہیں ڈلوائیں گے، اُس وقت تک کام نہیں بنے گا۔‘‘

سینیٹر اعتزاز احسن نے خفیہ اداروں کے کردار سے متعلق ملک میں جاری بحث کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان اداروں کے دائرہ اختیار کا تعین کرنے کے لیے قانونی سازی کی ضرورت ہے۔

لیکن اُنھوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں ملک کا آہم ترین مسئلہ کمزور معیشت ہے اور اُن کے بقول بالادست طبقات خود کو قانون اور آئین سے ماورا سمجھتے ہیں جس کی وجہ ’’وی آئی پی کلچر‘‘ پیدا ہو چکا ہے۔

سینیٹر اعتزاز احسن
سینیٹر اعتزاز احسن

’’ریاست کا مزاج تبدیل کرنا ہمارے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ ہمارا مقصد ہوگا کہ ... چند ذمہ داریاں ایسی ہوں جن سے ریاست دستبردار نا ہو سکے۔‘‘

اُنھوں نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم، روزگار، رہائش، خوراک، آمد و رفت اور صحت اُن بنیادی سہولتوں میں شامل ہیں جو ریاست کو کم ترین قیمت پر عوام کو فراہم کرنی چاہیئں۔

نئے سینیٹرز کی حلف برداری کے بعد ایوان بالا کے اراکین کی تعداد 104 ہو گئی ہے، کیوں کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت سینیٹ میں اقلیتی برادری کے لیے متعارف کی گئی چار نشستوں پر بھی پہلی مرتبہ اراکین کو منتخب کیا جا چکا ہے۔

موجودہ ایوان بالا میں 41 نشستوں کے ساتھ پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت ہے، جب کہ حزب مخالف کی مسلم لیگ (ن) کے پاس 14 نشستیں ہیں۔

دیگر جماعتوں میں عوامی نیشنل پارٹی کی 12، جمیعت العما اسلام (ف) اور متحدہ قومی موومنٹ سات، سات، مسلم لیگ(ق) کی پانچ، بلوچستان عوامی نیشنل پارٹی چار جب کہ نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ فنکشنل کی ایک، ایک نشست ہے۔

XS
SM
MD
LG