رسائی کے لنکس

سوشل میڈیا کی طاقت، تحریک انصاف نے فاروق بندیال کو پارٹی سے نکال دیا


فاروق بندیال پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کے وقت عمران خان کے ہمراہ۔
فاروق بندیال پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کے وقت عمران خان کے ہمراہ۔

پاکستان میں سوشل میڈیا کا بھرپور دباؤ ایک بار پھر دیکھنے میں آیا ہے اور پاکستان تحریک انصاف نے حال ہی پارٹی میں شامل ہونے والے ایک سیاست دان کو سوشل میڈٰیا پر چلنے والی مہم کے باعث ایک ہفتہ میں ہی پارٹی سے خارج کردیا ہے۔

خوشاب سے تعلق رکھنے والے فاروق بندیال حال ہی میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے بنی گالہ میں ملے اور پی ٹی آئی کا روایتی رومال گلے میں لٹکایا لیکن سوشل میڈیا پر ان کے خلاف ایک مہم چلی جس میں بتایا گیا کہ وہ ماضی کی معروف اداکارہ شبنم کے کے گھر پر ڈکیتی اور ان کےساتھ مبینہ طور پر جنسی زیادتی کے مجرم ہیں۔

اس الزام کے بعد ملک بھر میں سوشل میڈیا پر ایک کہرام مچ گیا اور پاکستان تحریک انصاف کو ایک مجرم کو پارٹی میں شامل کرنے کے الزام کے ساتھ شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بڑھتی ہوئی تنقید پر منگل کے روز پارٹی ترجمان فواد چوہدری نے معاملہ کی تحقیقات کے لیے نعیم الحق کو تحقیقات کے لیے مقرر کرنے کا اعلان کیا اور بدھ کے روز نعیم الحق نے ٹوئیٹ کرکے فاروق بندیال کو پارٹی سے نکالے جانے کی تصدیق کردی۔

نعیم الحق نے کہا کہ تحریک انصاف نے مجرمانہ ریکارڈ ثابت ہونے پر فاروق بندیال کو پارٹی سے نکال دیا ہے۔فاروق بندیا ل کا پارٹی میں شامل ہونا بدقسمتی تھی۔

فاروق بندیال نے ایک ہفتہ قبل ہی پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔فاروق بندیال کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ 1980ء کے عشرے میں وہ ماضی کی معروف اداکارہ شبنم کے گھر ڈکیتی اور ان سے زیادتی کے واقعے میں ملوث تھے۔ یہ معاملہ ’شبنم ڈکیتی‘ کیس کے نام سے بہت مقبول ہوا تھا۔

ٹوئٹر پر صارفین نے اس جرم کے بارے میں بے شمار کمنٹس پوسٹ کیے یہاں تک کہ فاروق بندیال نامی ہیش ٹیگ اب بھی ٹوئٹر پر مقبول ہے۔

اداکارہ شبنم نے بھی اپنے ایک ٹویٹ میں فاروق بندیال کو تحریک انصاف سے نکالے جانے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے عمران خان کا شکریہ ادا کیا ہے۔اپنی ٹویٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں ایک جنسی زیادتی کے ایک مجرم کو پارٹی سے نکالے جانے کے فیصلے پر عمران خان کےطرز عمل کو سراہتی ہوں اور ساتھ ہی پاکستان کے عوام کا شکریہ ادا کرتی ہوں جو ایک ریپسٹ کے خلاف کھڑے ہوئے۔ جیتے رہیں۔

سوشل میڈیا پر اکتوبر 1979ء کے ایک اخبار کا تراشا بھی زیر گردش ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ فوجی عدالت نے شبنم ڈکیتی کیس کے پانچ مجرموں کو سزائے موت سنائی تھی۔ ان مجرموں میں فاروق بندیال، یعقوب بٹ، عابد، تنویر اور جمشید اکبر شامل تھے، اس کے علاوہ ایک مجرم کو 10 سال قید اور ساتواں مجرم مفرور قرار دیا گیا تھا۔

News paper
News paper

ان مجرموں کو کوٹ لکھپت جیل میں رکھا گیا تھا۔ لیکن بعد میں اثر و رسوخ رکھنے والے فاروق بندیال کی موت کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا اور چند سالوں بعد انہیں رہا کردیا گیا لیکن اب ایک بار پھر ماضی کا یہ قصہ کھلا اور انہیں تحریک انصاف کی سیاست سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں۔

اس معاملہ کی وجہ سے پی ٹی آئی کو بھی یوٹرن اور اپنے کیے گئے فیصلہ کو واپس لینے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں خیبرپختونخواہ اور پنجاب میں نگران وزرائے اعلیٰ کے نام دیے جانے اور واپس لیے جانے پر ملک بھر میں پارٹی پر شدید تنقید کی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد بھی اگر ایسے ہی فیصلے کرکے واپس لیے جاتے رہے تو ملک کا کیا حال ہوگا۔

XS
SM
MD
LG