رسائی کے لنکس

نئی مالیاتی پالیسی میں شرح سود 6.5 فیصد پر برقرار


سٹیٹ بینک کے مطابق سیلاب کے منفی اثرات سے جلد خراب ہونے والی کھانے کی اشیاء کی پیداوار میں کمی آئے گی، جس سے افراط میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان کے مرکزی بینک نے سال کی پہلی مالیاتی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے ڈسکاؤنٹ انٹرسٹ ریٹ یعنی بینکوں کو قرض دینے کی شرح سود کو 6.5 فیصد پر برقرار رکھا ہے۔

سٹیٹ بینک کے گورنر اشرف محمود وتھرا نے ہفتہ کو کراچی میں پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے گزشتہ سال کے دوران ملک کی مالیاتی صورتحال کا جائزہ پیش کیا اور 2016 کے بارے میں بینک کا تخمینہ پیش کیا۔

سٹیٹ بینک کے مطابق معیشت کی موجودہ صورتحال میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کیونکہ ملک کو در پیش اقتصادی چیلنجز پر قابو نہیں پایا جا سکا، تاہم کم شرح سود، ترقیاتی اخراجات میں اضافے ور تعمیراتی شعبے کو بجٹ میں دی گئی مراعات کے باعث اقتصادی ترقی میں اضافے کی توقع نہیں۔

مئی میں گزشتہ مالی سال کی آخری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے بینک نے ڈسکاؤنٹ ریٹ کا نیا نظام متعارف کرایا تھا جس کے تحت شرح سود کی بالائی اور نچلی سطحیں مقرر کی گئیں تھیں۔ اگرچہ شرح سود کی بالائی سطح سات فیصد رکھی گئی تھی مگر اصل شرح سود 6.5 مقرر کی گئی تھی، جس کو موجودہ مالیاتی پالیسی میں برقرار رکھا گیا ہے۔

گزشتہ سال عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث ملک میں افراطِ زر کی شرح میں قابل ذکر کمی واقع ہوئی جس کے باعث شرح سود کو کم کرنا ممکن ہوا۔

اس وقت سٹیٹ بینک کے گورنر نے کہا تھا کہ اس سے ملک میں کاروبار اور تجارت میں اضافہ ہو گا کیونکہ کاروباری اداروں کو قرض مزید آسان شرائط پر دستیاب ہو گا۔

موجودہ پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شرح سود کم کرنے سے ملک کی عالمی اقتصادی درجہ بندی میں بہتری آئی ہے اور معاشی استحکام پیدا ہوا ہے جس کے مثبت اثرات مستقبل میں حقیقی معاشی سرگرمی پر پڑنے کی توقع ہے۔

تاہم ان کے بقول سیلاب کے منفی اثرات سے جلد خراب ہونے والی کھانے کی اشیاء کی پیداوار میں کمی آئے گی، جس سے افراط میں اضافہ ہو سکتا ہے مگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث اس کو ایک خاص سطح پر برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔

ماہر اقتصادیات سلمان شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقتصادی ترقی اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا آئی ایم ایف سے قرض کی بنیادی شرائط کا حصہ ہے اس لیے حکومت نے اس میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی۔

’’وہ افراط زر کو دیکھ رہے ہیں کہ کہیں وہ بڑھ تو نہیں رہا۔ اس وقت کیونکہ تیل کی قیمتیں گری ہوئی ہیں تو افراط زر کے بڑھنے کا اندیشہ کم ہی ہے۔ اجناس کی قیمتیں بھی بہت کم ہیں۔ اشیائے خوراک کی قیمتوں میں سپلائی میں رکاوٹوں کے باعث کچھ بڑھ سکتی ہیں لیکن عمومی طور پر وہ مستحکم ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کا بڑا مسئلہ سرمایہ کاری کا ہے۔

’’نجی سرمایہ کاری میں کوئی خاص اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ سرمایہ دار ابھی بھی انتظار میں ہے کہ پاکستان میں سکیورٹی کے مسائل کب حل ہوں گے۔ بجلی کا بحران بھی حل نہیں کیا جا سکا۔ شفافیت اور اس قسم کے دوسرے مسائل بھی ویسے ہی ہیں۔ میرے خیال میں سرمایہ کاری کے ماحول میں کوئی کمی بھی نہیں آئی لیکن بہتری بھی نہیں ہوئی۔‘‘

حکومتی عہدیدار یہ بات کہتے رہے ہیں کہ معیشت کی بحالی اور اقتصادی ترقی موجودہ حکومت کا بنیادی ایجنڈا ہے۔ اور اس سلسلے میں حکومت بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے مختلف اقدامات کا اعلان کر چکی ہے۔

XS
SM
MD
LG