رسائی کے لنکس

امریکہ کو مطلوب نوجوان پاکستانی فورسز کی حراست میں


امینہ بی بی
امینہ بی بی

پاکستانی طالبان کی مدد کرنے کے الزام میں امریکہ میں زیر حراست پاکستانی نژاد امریکی شہری حافظ محمد شیر علی کے آبائی ضلع سوات سے اُن کے نوعمر نواسے عالم زیب کو پیر کی صبح فوجی حکام نے حراست میں لے لیا۔ مقامی پولیس نے اس واقعہ کی تصدیق کی ہے تاہم فوری طور پر مزید تفصیلات معلوم نہیں ہو سکی ہیں۔

ریاست فلوریڈا کی ایک مسجد کے امام شیر علی کو اُن کے دو بیٹوں اظہار خان اور عرفان خان سمیت امریکی حکا م نے پاکستا ن طالبان کو مالی مدد فراہم کرنے کے جرم میں گذشتہ ہفتے گرفتار کیا تھا۔ ان تینوں پر فرد جرم عائد کی جاچکی ہے اور پاکستان میں ان کی معاونت کرنے والوں میں شیر علی کی 39سالہ بیٹی امینہ بی بی اور اُس کے بیٹے عالم زیب سمیت تین افراد بھی امریکہ کو مطلوب ہیں ۔

سوات کی تحصیل کبل سے تعلق رکھنے والے حافظ محمد شیر علی کی بیٹی امینہ بی بی نے اتوار کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے 76سالہ والد اورخاندان کے دیگر افراد پر لگائے جانے والے الزامات من گھڑت ہیں ۔ عالم زیب نے بھی اس موقع پر صحافیوں سے گفتگومیں بتایا تھا کہ وہ ایف ایس سی کے طالب علم ہیں اوروہ کبھی امریکہ نہیں گئے۔

عالم زیب نے بھی امریکہ کی طرف سے اپنے نانا، والدہ اور خاندان کے دیگر افراد پر لگائے جانے والے الزامات کومستر د کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کا طالبان سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا اور اُن کے بقول مقامی آبادی سے اُن کے خاندان کے اس موقف کی تصدیق کروائی جاسکتی ہے ۔

امینہ بی بی کا کہنا ہے کہ اُن کے والد 17 سال سے امریکی ریاست فلوریڈا میں مقیم ہیں اور پانچ سال قبل وہ اُن سے ملنے امریکہ بھی گئی تھیں۔ حافظ شیر علی اورامریکہ میں مقیم اُس کے دو بیٹوں پر الزام ہے کہ اُنھوں نے پاکستانی طالبان کو 45ہزار ڈالر کی رقم بجھوائی تھی تاہم امینہ بی بی کا کہناہے کہ اُن کے والد کی طرف سے بجھوائی گئی رقم سے علاقے میں ایک مسجد اور لڑکیوں کے لیے مدرسہ قائم کیا گیا ہے ۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ حافظ محمد شیر علی خان کا ایک اور بیٹا اکرام الحق بھی امریکہ میں مقیم ہے لیکن امریکی حکومت کو ایسے کسی الزام میں مطلوب نہیں ہے۔ تاہم پاکستان میں پولیس کے ریکارڈ کے مطابق اکرام الحق پر انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت دو مقدمات قائم ہیں جن کے تحت اس پر پولیس اورفوج پر حملوں کا الزام ہے اور یہ مقدمات 2008ء میں قائم کیے گئے تھے۔

سوات میں ذرائع کا کہنا ہے کہ اکرام الحق سوات طالبان کے مفرور رہنماء مولانا فضل اللہ کا ایک اہم کمانڈر تھا ۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ سوات کی تحصیل کبل پاکستانی طالبان کا ایک اہم گڑھ رہا ہے اوروادی سوات سمیت مالاکنڈ ڈویژن کے دیگر اضلاع میں2009ء میں پاکستانی فوج نے عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی کرکے سینکڑوں طالبان کو ہلاک کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG