رسائی کے لنکس

پاکستانی طالبان کی مدد کے الزامات ’من گھڑت‘


امینہ بی بی
امینہ بی بی

امینہ بی بی نے بتایا کہ اُن کے والد نے تیس سال قبل ایک مسجد میں یہ مدرسہ تعمیر کیا تھا اور پانچ سال پہلے اس کی تعمیر نو کے لیے اُنھوں نے جو رقم بھیجی تھی اس کی مدد سے یہ پانچ منزلہ عمارت بنائی گئی۔مدرسے میں پانچ خواتین اساتذہ ہیں جبکہ پچا س لڑکیاں زیر تعلیم ہیں جن کی عمریں بارہ اور پندرہ سال کے درمیان ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان الزامات میں ہر گز صداقت نہیں ہے کہ اُن کے خاندان کا طالبان سے تعلق رہا ہے یا اُن کی مالی معاونت کرتا رہاہے۔

طالبان کی مدد کرنے کے الزام میں امریکہ میں زیر حراست پاکستانی نژاد76 سالہ امریکی شہری حافظ محمد شیر علی خان کی بیٹی امینہ بی بی نے اپنے والد اور خاندان کے دیگر افراد پر لگائے گئے الزامات کومن گھڑت قرار دے کر مسترد کیا ہے۔

اتوار کو ضلع سوات کی تحصیل کبل کے گالوچ سر سائی نامی آبائی گاؤں میں اپنی رہائش گاہ پرصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ اُن کے والد اور دو بھائیوں کی گرفتاری اُن کے لیے باعث حیر ت ہے کیونکہ وہ بے گناہ ہیں۔

امینہ بی بی نے بتایا کہ اُن کے والد امریکی ریاست فلوریڈا میں گزشتہ 17 سال سے مقیم ہیں جہاں وہ ایک مسجد کے امام ہیں اور آخری مرتبہ پانچ سال قبل وہ اُنھیں ملنے امریکہ گئی تھیں۔

امریکہ کو مطلوب اُن کے بیٹے عالم زیب نے بھی اس موقع پر صحافیوں کو بتایا کہ وہ ایف ایس سی کے طالب علم ہیں اورآج تک امریکہ نہیں گئے ہیں۔ ”علاقے کے لوگوں سے پوچھئے یا کسی بھی طرح کی چھان بین کرلیں آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہمارا طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ سراسر بے بنیاد الزامات ہیں۔“

واشنگٹن میں امریکی محکمہ انصاف نے ہفتہ کو انکشاف کیا تھا کہ جنوبی ریاست فلوریڈا میں تین پاکستانی نژاد امریکیوں کو بیرون ملک قتل، اغوااورپاکستانی طالبان کو مالی مدد فراہم کرنے کے الزامات میں گرفتار کرکے اُن پر فرد جرم عائد کردی ہے۔

امریکی حکام کے مطابق زیر حراست افراد کی پاکستان میں معاونت کرنے والو ں میں امینہ بی بی، عالم زیب اور ایک تیسراشخص علی رحمن شامل ہیں اور یہ تینوں امریکہ کو مطلوب ہیں۔

پاکستانی نژاد امریکی شہریوں حافظ شیر علی خان اور اُن کے دو بیٹوں اظہار خان اور عرفان خان پر الزام ہے کہ اُنھوں نے پاکستانی طالبان کو 45 ہزار ڈالر بھیجے تھے۔

تاہم 39 سالہ امینہ بی بی نے اتوار کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے والد نے انھیں جو پیسے بھیجے ہیں ان سے علاقے میں ایک مسجد اور لڑکیوں کے لیے” اخوالعلوم “ کے نام سے مدرسہ تعمیر کیا گیا ہے جہاں کی خواتین اساتذہ کی تنخواہ اور دیگر اخراجات بھی اُن کے والد امریکہ سے بھیجتے ہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ اُن کے والد نے تیس سال قبل ایک مسجد میں یہ مدرسہ تعمیر کیا تھا اور پانچ سال پہلے اس کی تعمیر نو کے لیے اُنھوں نے جو رقم بھیجی تھی اس کی مدد سے یہ پانچ منزلہ عمارت بنائی گئی۔

امینہ بی بی نے بتایا کہ مدرسے میں پانچ خواتین اساتذہ ہیں جبکہ پچا س لڑکیاں زیر تعلیم ہیں جن کی عمریں بارہ اور پندرہ سال کے درمیان ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان الزامات میں ہر گز صداقت نہیں ہے کہ اُن کے خاندان کا طالبان سے تعلق رہا ہے یا اُن کی مالی معاونت کرتا رہاہے۔

عالم زیب
عالم زیب


اُن کے بیٹے عالم زیب نے بتایا کہ امریکہ نے فیصل علی رحمن نامی جس چھٹے شخص پر طالبان کی مدد کرنے کا الزام لگایا ہے وہ اُن کے علاقے میں ایک دکان چلاتا ہے ۔”ہمارا بینک اکاؤنٹ نہیں ہے اس لیے امریکہ سے پیسے اسی دکاندار کے توسط سے ہمیں بھیجے جاتے ہیں۔“

یہ امر قابل ذکر ہے کہ سوات میں کبل کا علاقہ پاکستانی طالبان کا ایک اہم گڑھ رہا ہے۔ 2009 ء کے اوائل میں ضلع سوات کے اکثر علاقوں میں مولانا فضل اللہ کی قیادت میں سوات طالبان نے اپنا اثرو رسوخ قائم کرلیا تھا۔

عسکریت پسندوں کی اس پیش رفت کے خلاف پاکستانی فوج نے ایک بھر پور فوجی کارروائی کرکے سینکڑوں طالبان کو ہلاک اور اُن کے کمانڈروں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کردیاتھا۔

XS
SM
MD
LG