رسائی کے لنکس

آئندہ محتاط رہوں گا، شاہد مسعود کا عدالت کو جواب


ڈاکٹر شاہد مسعود (فائل فوٹو)
ڈاکٹر شاہد مسعود (فائل فوٹو)

پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل کے اینکرپرسن ڈاکٹر شاہد مسعود نے قصور میں جنسی زیادتی کے بعد قتل ہونے والی کم سن بچی کے ملزم عمران سے متعلق اپنے دعوؤں پر تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا ہے۔

جواب میں معافی مانگے بغیر انھوں نے آئندہ محتاط رہنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور تسلیم کیا ہے کہ الزامات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے قائم تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ درست ہے۔ کمیٹی کی تحقیقات پر مقدمہ لڑنے سے بھی انہوں نے معذرت کرلی ہے۔

شاہد مسعود نے اپنے پروگرام میں انکشاف کیا تھا کہ زینب قتل کیس کے مرکزی ملزم عمران علی کے 37 بینک اکاؤنٹس ہیں اور وہ بچوں کی نازیبا ویڈیوز بنانے والے ایک بین الاقوامی گروہ کا کارندہ ہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ملزم کو ایک بڑی سیاسی شخصیت اور رکنِ اسمبلی کی پشت پناہی حاصل ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اینکر پرسن کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملزم عمران کا کسی بینک میں کوئی اکاؤنٹ نہیں ملا۔

تاہم شاہد مسعود کی جانب سے اپنے الزامات درست ہونے پر اصرار کے بعد سپریم کورٹ نے ان کے دعوؤں کا نوٹس لیتے ہوئے مزید تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی جس نے اپنی رپورٹ فروری میں عدالت میں جمع کرائی تھی۔

کمیٹی کے سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن تھے جب کہ انٹیلی جنس بیورو کے جوائنٹ ڈائریکٹر انور علی اور اسلام آباد پولیس کے ایڈیشنل آئی جی عصمت اللہ جونیجو بھی کمیٹی میں شامل تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ملزم کے کسی بین الاقوامی گروہ کا متحرک رکن ہونے کے الزامات بے بنیاد ہیں جب کہ عمران علی پر بیرونِ ملک سے رقم وصول کرنے کے الزامات بھی ثابت نہیں ہوسکے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ملزم عمران علی کی سیاسی وابستگی کا بھی ثبوت نہیں ملا جب کہ قصور میں وحشیانہ چائلڈ پورنوگرافی سے متعلق الزام کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں۔

کمیٹی نےتین بار ڈاکٹر شاہد مسعود کو اپنی صفائی دینے کا موقع فراہم کیا لیکن وہ ایک بار بھی ملزم عمران پر لگائے گئے الزامات کو ثابت نہ کرسکے

ہفتہ کو سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں ڈاکٹر شاہد مسعود کا کہنا تھا کہ "یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ اس طرح کا بیان دیتے ہوئے محتاط رہوں گا، سانحہ قصور پر بطور باپ جذباتی ہوگیا تھا، مجرم عمران علی کے بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے معلومات ملیں جبکہ عمران علی کی با اثر افراد سے تعلقات کی بھی اطلاع ملی۔"

تحریری جواب میں انھوں نے کہا ہے کہ انکوائری کمیٹی کے ممبران کا انتخاب عدالت نے کیا اور الزامات کی سچائی پتا چلانے کا مینڈیٹ بھی کمیٹی کوعدالت نے دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ تحقیقاتی کمیٹی کے نتائج کی صداقت پر کوئی بات نہیں کرسکتے اور "کمیٹی نے رپورٹ میں جو کہا اس کی تردید نہیں کرتا اور اس کی فائنڈنگ پر مقدمہ لڑنا نہیں چاہتا۔"

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ پیر کو ڈاکٹر شاہد مسعود کے الزامات سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت کرے گا۔

گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس نے شاہد مسعود پر واضح کیا تھا کہ اب معاملہ معافی پرختم نہیں ہوگا اس کے نتائج آپ کو بھگتنا ہوں گے۔"

ڈاکٹر شاہد مسعود کی طرف سے عائد کردہ الزامات پر میڈیا میں کئی روز تک یہ معاملہ زیربحث رہا اور سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سماعت پر جب سٹیٹ بنک نے اپنی رپورٹ پیش کی کہ ملزم عمران کا کوئی بنک اکاؤنٹ نہیں تو دیگر سینئر صحافیوں نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو الزامات واپس لینے اور معافی کا مشورہ دیا لیکن ڈاکٹر شاہد مسعود اپنے الزامات پر ڈٹے رہے۔ گذشتہ سماعت پر انہوں نے معافی مانگنے کی پیشکش کی لیکن چیف جسٹس نے انہیں براہ راست جواب دیا کہ اب معافی کا وقت گزر چکا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان اس کیس میں ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ ان کے چینل 'نیوز ون' کو بھی اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرچکی ہے۔

XS
SM
MD
LG