رسائی کے لنکس

پاکستان سیلاب سے نمٹنے کے لیے اپنے اندرونی وسائل بروئے کار لائے


متاثرین سیلاب کے لیے قائم ایک امدادی کیمپ
متاثرین سیلاب کے لیے قائم ایک امدادی کیمپ

امریکی عہدیدارنے یہ تجویز دی کہ پاکستان سیلاب زدہ علاقوں میں تعمیر نو کے لیے ایک ایسا مربوط ڈھانچہ پیش کرے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ صوبوں اور انفرادی گروپوں کے درمیان امداد کی تقسیم کے سلسلے میں عدم توازن کے مسائل جنم نہیں لیں گے۔

امریکی عہدیداراور پاکستان کے اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اندرون ملک موجود مالی وسائل کو موثر طور پر بروئے کار لائے اور طرزحکمرانی میں موجود نقائص کو دور کر لے تو ان اقدامات سے حاصل ہونے والا سرمایہ بڑی حد تک سیلاب زدہ علاقوں کی تعمیر نو میں مدد دے سکتا ہے۔

اسلإم آباد میں منعقد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے لیے امریکی اقتصادی معاون رابن رافیل نے اپنے ملک کی طرف سے پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے میں ہر ممکن مدد کا یقین دلایا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پاکستان کے نظام میں اتنی دولت موجود ہے جو متاثرہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر تعمیر نو کے لیے استعمال ہو سکتی ہے اور اب یہ پاکستان پر منحصر ہے کے وہ کس طرح ان وسائل کو پیدا کرتا ہے ۔

رابن رافیل
رابن رافیل

انھوں نے تجزیہ کاروں کے اس جائزے کو دہرایا کہ پاکستانی معیشت کے کئی شعبے ٹیکس سے مستثنٰی ہیں جس سے عدم توازن پیدا ہوا رہا ہے ۔

امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ عالمی برادری پاکستان کی ہر طرح سے مدد کرنا چاہتی ہے لیکن وہ اس بات کا یقین چاہتی ہے کہ ان کی دی ہوئی امداد کو منصفانہ ، شفاف اور موثر طریقے سے مستحقین تک پہنچایا جائے ۔

’’امداد دینے والے یہ اعتماد چاہتے ہیں کہ بدعنوانی کے سلسلے میں پائے جانے والے خد شا ت دور کیے جا سکتے ہیں اور کیے جائیں گے‘‘۔

رابن رافیل نے کہا کہ ان کے ملک کی طرف سے کیری لوگر بل کے تحت دی جانے والی امداد کی نگرانی کے لیے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کو شامل کرنے کا مقصد کسی بھی قسم کی ممکنہ بدعنوانی کے الزامات کو سامنے لانا ہے اور یہ امریکی حکومت کی طرف سے اپنے منصوبوں میں شفافیت کو یقینی بنانے کی وسیع کوششوں کا حصہ ہے۔

انھوں نے یہ تجویز بھی دی کہ پاکستان سیلاب زدہ علاقوں میں تعمیر نو کے لیے ایک ایسا مربوط ڈھانچہ پیش کرے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ صوبوں اور انفرادی گروپوں کے درمیان امداد کی تقسیم کے سلسلے میں عدم توازن کے مسائل جنم نہ لیں۔

امریکی خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک نے بھی اپنے پاکستان کے حالیہ دورے کے دوران کہا تھا کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو ملنے والی امداد اس کی ضروریات سے کم ہے اور اس خلا کو پر کرنے کے لیے ملک کو اپنے طور پر مالی وسائل پیدا کرنا ہوں گے ۔

اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف یہ الزام عائد کرتے ہیں کے اس وقت ٹیکس کی مد میں ہونے والی چوری سے قومی خزانہ تقریباً سات سو ارب روپے سے محروم ہو رہا ہے اور حکومت کو اس کی طرف فوری توجہ دینی چاہیئے ۔ ’’یہ وہ پیسہ ہے جو نطام کے اندر سے چوری ہو جاتا ہے اور قومی خزانے تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کی سودے بازی ہو جاتی ہے‘‘۔

خود وفاقی وزیر خزانہ بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کے امیر طبقے میں ٹیکس دینے کے رجحان کا فقدان ہے اور ان کے مطابق ٹیکس دینے کے رجحان کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ حکومت عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرسکے۔

شیری رحمن (فائل فوٹو)
شیری رحمن (فائل فوٹو)

حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کی ایک رہنما شیری رحمان نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ ان کی جماعت طرز حکمرانی میں درکار بہتری کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہے اور وہ یہ عزم بھی رکھتی ہے کہ ہر طرح کی شکایات اور مسائل کو دور کیا جائے۔

تاہم عالمی برادری کو امداد کے شفاف استعمال کے سلسلے میں درکار ضمانت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کے عالمی امداد کا ایک بڑا حصہ تو خود اقوام متحدہ کے ذریعے آ رہا اور اس کا ایک بہت کم حصہ پاکستان کی حکومت کے ذریعے حاصل ہو گا جس کے منصفانہ استعمال کو یقینی بنایا جائے گا۔

سیلاب متاثرین تک امداد کی فراہمی کے منصفانہ طریقہ کار کو یقینی بنانے کے لیے حکومت پہلے ہی نیشنل اوورسائٹ ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کونسل کے نام سے غیر جانب دار افراد پر مشتمل ایک ادارہ قائم کر چکی ہے جس کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ یہ کونسل فنڈز کی تقسیم میں احتساب کو یقینی بنانے کے لیے پوری طرح خود مختار ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ یہ امدادی اداروں کے تمام تر خدشات کو دور کرے۔

XS
SM
MD
LG