رسائی کے لنکس

پاکستان کو جموں حملے کا حساب دینا ہوگا: بھارتی وزیرِ دفاع


بھارتی وزیرِ دفاع نرملا سیتا رامن بھارتی فضائیہ کے دورے کے دوران ایک جنگی طیارے کا معائنہ کر رہی ہیں۔ (فائل فوٹو)
بھارتی وزیرِ دفاع نرملا سیتا رامن بھارتی فضائیہ کے دورے کے دوران ایک جنگی طیارے کا معائنہ کر رہی ہیں۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کے وزیرِ دفاع نے اپنے جوابی میں کہا ہے کہ پاکستان کسی بھی بھارتی غلطی کی قیمت اسی کے انداز میں چکائے گا۔

پاکستان نے بھارت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کا ہر قیمت پر دفاع کرے گا اور بھارت کی طرف سے کسی بھی جارحیت یا مہم جوئی کا اسی شدت سے جواب دیا جائے گا۔

ایک روز قبل بھارت کی وزیرِ دفاع نرملا سیتا رامن نے کہا تھا کہ پاکستان کو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک فوجی کیمپ پر ہونے والے حملے کی قیمت چکانا ہوگی۔

گزشتہ اختتامِ ہفتہ جموں میں ایک فوجی کیمپ پر حملے میں پانچ بھارتی فوجیوں سمیت نو افراد ہلاک ہو ئے تھے۔

پیر کو حملے کا سامنا کرنے والے فوجی اڈے کے دورے کے موقع پر نرملا سیتارامن نے دعویٰ کیا تھا کہ انٹیلی جنس معلومات کے مطابق حملہ آوروں کو سرحد پار پاکستان سے کنٹرول کیا جا رہا تھا اور ان کا تعلق پاکستانی تنظیم جیشِ محمد سے تھا۔

اس سے قبل دیگر بھارتی حکام نے بھی حملے میں پاکستانی شدت پسندوں کے ملوث ہونے کا دعویٰ کیا تھا جسے پاکستان نے سختی سے مسترد کر دیا تھا۔

منگل کو پاکستان کے وزیرِ دفاع خرم دستگیر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پاکستان پر الزام لگانے کے بجائے اس کے خلاف "ریاستی سرپرستی میں جاسوسی" کا جواب دے جس کی زندہ مثال ان کے بقول کلبھوشن یادو کی شکل میں دنیا کے سامنے ہے۔

پاکستان کے وزیرِ دفاع خرم دستگیر
پاکستان کے وزیرِ دفاع خرم دستگیر

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کسی بھی بھارتی غلطی کی قیمت اسی کے انداز میں چکائے گا۔

اپنے بیان میں پاکستانی وزیرِ دفاع نے دعویٰ کیا کہ بھارت خطے کے امن کو جوہری دفاع سے متعلق اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور لائن آف کنٹرول پر شہری آبادی پر حملوں کے ذریعے غیر مستحکم کر رہا ہے۔

ان کے بقول بھارت ان 42 پاکستانیوں کو انصاف دینے میں ناکام رہا ہے جنہیں 11 سال قبل سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔

خرم دستگیر نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج ملک کی جغرافیائی خودمختاری کا دفاع کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔

دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان اپنے قیام سے ہی تعلقات شروع ہی سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں جن میں تناؤ کا عنصر غالب رہا ہے۔ اس کشیدگی میں حالیہ برسوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور دونوں کے درمیان تمام اعلیٰ سطحی رابطے بھی تقریباً معطل ہیں۔

امریکہ اور اقوامِ متحدہ دونوں ملکوں پر زور دیتے آ رہے ہیں کہ وہ اپنے تنازعات کو پر امن طریقے سے حل کرنے کے لیے بات چیت کا راستہ اختیار کریں۔

XS
SM
MD
LG