رسائی کے لنکس

’شمالی وزیرستان میں آپریشن کا منصوبہ نہیں‘


پاکستانی فوج کو علاقے میں حکومت کی عمل داری بحال کرنے کا مشن سونپا گیا ہے۔
پاکستانی فوج کو علاقے میں حکومت کی عمل داری بحال کرنے کا مشن سونپا گیا ہے۔

جنرل آصف یاسین نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں حالات مسلسل بہتری کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اسی وجہ سے وہاں حالیہ مہینوں میں چند بڑے ترقیاتی منصوبوں پر بھی کام کا آغاز ممکن ہوا ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ ایک روز قبل رزمک کا کیڈٹ کالج بھی کھول دیا گیا ہے جو ایک اہم پیش رفت ہے۔

پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف مصروف عمل افواج کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف یاسین ملک نے کہا ہے کہ شورش زدہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں عنقریب کسی آپریشن کا منصوبہ نہیں ہے۔

افغان سرحد سے ملحقہ ایک اور قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں بدھ کو مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں جنرل آصف یاسین نے بتایا کہ فوج کی ہر کارروائی زمینی حقائق اور قومی مفادات کو مد نظر رکھ کر کی جائے گی، اوراس وقت اُن کی ترجیح شدت پسندوں سے خالی کرائے گئے دیگر علاقوں میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل آصف یاسین ملک
لیفٹیننٹ جنرل آصف یاسین ملک

پشاور میں تعینات پاکستانی فوج کی 11 ویں کور کی کمان کرنے والے اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہونے والے متنازع بیانات کو مقامی ذرائع ابلاغ بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

حالیہ دنوں میں منظر عام پر آنے والی خبروں میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں کے خلاف فضائی و زمینی آپریشن کا فیصلہ کر لیا ہے جب کہ اس کی وجہ سے ہونے والی ممکنہ نقل مکانی سے نمٹنے کے لیے امدادی تنظیموں کو انتظامات کرنے کی بھی ہدایت جاری کی گئی ہے، لیکن ان اداروں کے نمائندوں نے اس اطلاعات کی تردید کی ہے۔

ان خبروں کو دی جانے والی اہمیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ طویل عرصے سے پاکستان پر دباؤ ڈالتا آیا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک سے منسلک جنگجوؤں کے خلاف بھرپور کارروائی کرے کیوں کہ یہ عسکریت پسند سرحد پار ہلاکت خیز حملے کرکے افغان اور امریکی افواج کو بھاری نقصان پہنچا رہے ہیں۔ دو مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی اسپیشل فورسز کی خفیہ کارروائی کے بعد ان مطالبات میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔

’فوج کی ہر کارروائی زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر کی جائے گی‘
’فوج کی ہر کارروائی زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر کی جائے گی‘

لیکن جنرل آصف یاسین نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں حالات مسلسل بہتری کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اسی وجہ سے وہاں حالیہ مہینوں میں چند بڑے ترقیاتی منصوبوں پر بھی کام کا آغاز ممکن ہوا ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ ایک روز قبل رزمک کا کیڈٹ کالج بھی کھول دیا گیا ہے جو ایک اہم پیش رفت ہے۔

جنرل آصف یاسین نے اس تاثر کو ایک بار پھر رد کیا کہ پاکستانی فوج شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہے۔ ”حقانی نیٹ ورک ہو، افغان طالبان ہوں یا تحریک طالبان پاکستان، پاکستانی فوج کسی شدت پسند تنظیم میں تفریق نہیں کرتی اور ملک کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے اور فوج پر حملہ کرنے والے تمام عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔“

اْنھوں نے کہا کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز ہر اْس شخص کے خلاف لڑ رہی ہیں جو علاقے میں عدم استحکام پیدا کر رہا ہے۔ ”یاد رکھیئے فوج کی 11 ویں کور کو اس علاقے میں حکومت کی عمل داری کی بحالی کا مشن سونپا گیا ہے، اس لیے میں (جنگجوؤں میں) تفریق نہیں کرتا۔ تمام دہشت گرد جو حکومت کو چیلنج کرتے ہیں ہمارے لیے برابر ہیں۔“

عسکریت پسند فوج کی حراست میں (فائل فوٹو)
عسکریت پسند فوج کی حراست میں (فائل فوٹو)

پاکستانی سرزمین پر امریکی افواج کے تعاون سے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے بارے میں جنرل یاسین ملک نے کہا کہ ”مشترکہ آپریشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم خود (ہر قسم کی کارروائی کرنے کی) صلاحیت رکھتے ہیں۔“

اُنھوں نے کہا کہ افغانستان میں نیٹو اور مقامی افواج اپنے علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف موثر کارروائی کرنے میں ناکام ہوئی ہیں جس کی وجہ سے سرحد پار خصوصاً افغان صوبہ کنڑ سے شدت پسند پاکستانی علاقوں میں داخل ہوکر دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔

کور کمانڈر کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج وقتاً فوقتاً افغانستان میں نیٹو افواج کو ان جنگجوؤں کی موجودگی کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے جس پر کبھی کبھار سرحد پار کارروائی بھی کی جاتی ہے۔ ”لیکن جو ہم چاہتے ہیں شاید وہ اتنی شدت سے کارروائی نہیں کرتے۔“

عسکریت پسندوں کے قبضے سے برآمد ہونے والی بندوقیں
عسکریت پسندوں کے قبضے سے برآمد ہونے والی بندوقیں

جنرل آصف یاسین کے مطابق افغانستان میں نیٹو کی سربراہی میں تعینات اتحادی افواج اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے مابین انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں خفیہ معلومات کا تبادلہ محدود سطح پر جاری ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ شدت پسندوں کے خلاف مبینہ امریکی ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فوج کی لڑائی میں مدد گار ثابت نہیں ہو رہے ہیں کیوں کہ ان کی وجہ سے ناصرف علاقے میں استحکام متاثر ہوتا ہے بلکہ حکومت کے حامی قبائلیوں کے ساتھ تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG