رسائی کے لنکس

زرداری کے امریکہ اور سیاسی مخالفین سے شکوے


اسلام آباد میں اتوار کو جنوبی ایشائی ملکوں کے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ’سیفما‘ کی کانفرنس سے صدر آصف علی زرداری خطاب کر رہے ہیں
اسلام آباد میں اتوار کو جنوبی ایشائی ملکوں کے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ’سیفما‘ کی کانفرنس سے صدر آصف علی زرداری خطاب کر رہے ہیں

صدر زرداری نے امریکہ کا نام لیے بغیر کہا کہ اُن کا زیادہ وقت اُس ملک کے چکر کاٹنے میں صرف ہوا جس سے پاکستان کو سب سے زیادہ مدد کی توقع تھی۔

صدر آصف علی زرداری نے شدت پسندی کے خلاف جاری پاکستان کی مہم پر قومی اتفاق رائے کے فقدان کا اعتراف کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ سوات اور جنوبی وزیرستان میں فوجی کارروائیوں سے قبل امریکہ اور دیگر اتحادیوں نے امداد کے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے۔

اسلام آباد میں اتوار کو جنوبی ایشائی ملکوں کے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ’سیفما‘ کی ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ سوات اور جنوبی وزیرستان میں قومی اتفاق رائے سے شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیاں شروع کی گئیں۔

’’دنیا نے ہمیں اس مہم اور جمہوریت کی مدد کی اُمیدیں دلا رکھیں تھیں۔ لیکن جونہی ہم نے (سوات اور جنوبی وزیرستان میں) جنگ شروع کی ہم پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ پاکستان تو اس میں بالکل تنہا ہے۔‘‘

صدر زرداری نے امریکہ کا نام لیے بغیر کہا کہ اُن کا زیادہ وقت اُس ملک کے چکر کاٹنے میں صرف ہوا جس سے پاکستان کو سب سے زیادہ مدد کی توقع تھی۔

’’لیکن صرف چین ہی وہ واحد ملک ہے جس نے ہماری مدد کی اور اُنھوں نے بھی پاک چین (روایتی دوستانہ) تعلقات کو مدد نظر رکھ کر ایسا کیا۔ دوسرے ملکوں نے تو محض رکاوٹیں پیدا کیں جنہیں عبور کرنا ہمارے لیے بہت مشکل ہو گیا۔‘‘

تاہم پاکستانی صدر نے اس کی مزید وضاحت نہیں کی اور یہ بیان ایسے وقت دیا ہے جب امریکہ کے ساتھ اُن کے ملک کے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں اگرچہ دونوں ملکوں کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں یہ کشیدگی کم ہوئی ہے۔

شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں کے خلاف فوجی آپریشن سے انکار بھی اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان عدم اعتماد کی ایک بڑی وجہ ہے۔

صدر زرداری نے کہا کہ پاکستان نے شدت پسندی کے خاتمے کا تہیہ کر رکھا ہے اور یہ لڑائی جاری رہے گی۔

’’اس جنگ میں قومی اتفاق رائے سے پیش قدمی کی جائے گی اور فوجی کارروائیوں کے لیے مناسب وقت کا تعین بھی پاکستان خود کرے گا۔ ‘‘

بظاہر شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی حمایت نہ کرنے کے اپوزیشن کے انتباہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صدر زرداری نے الزام لگایا کہ اُن کے سیاسی مخالفین آئندہ انتخابات میں دائیں بازو کے خیالات کے حامیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایسا کر رہے ہیں۔

’’حزب اختلاف سے آج یہ کہنا بے سود ہو گا کہ وہ (شدت پسندی کے خلاف حکومت کی مہم میں) قومی اتفاق رائے قائم کرنے میں مدد کرے، کیونکہ آپ اور میں سب جانتے ہیں کہ وہ قدامت پسندوں کے ووٹ پر تکیہ کر رہے ہیں۔‘‘

صدر زرداری نے امریکہ اور اپنے سیاسی مخالفین کو ایک ایسے وقت ہدف تنقید بنایا ہے جب ناقص طرز حکمرانی، سرکاری اداروں میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی اور ملک کی اعلٰی عدلیہ کے ساتھ غیر ضروری قانونی جھگڑوں میں الجھنے پر خود اُنھیں اور اُن کی پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کو کڑی تنقید کا سامنا ہے۔
XS
SM
MD
LG