رسائی کے لنکس

رونا لیلیٰ سے عاطف اسلم تک پاکستانی فنکاروں کی بھارت میں مقبولیت کے ریکارڈ


رونا لیلیٰ سے عاطف اسلم تک پاکستانی فنکاروں کی بھارت میں مقبولیت کے ریکارڈ
رونا لیلیٰ سے عاطف اسلم تک پاکستانی فنکاروں کی بھارت میں مقبولیت کے ریکارڈ

پاکستان اور بھارت میں سرحدوں کی موجودگی کے باوجود دونوں ممالک کی ثقافت قریب قریب ایک ہی جیسی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے فنکار ایک دوسرے کے یہاں جا کر قیام کرتے اور فلموں میں کام کرتے رہے ہیں۔

وی او اے کے نمائندے کی تحقیق کے مطابق 1970ء کی دہائی کے اوائل میں بنگلا دیش کے قیام کے بعد رونا لیلیٰ بھارت گئیں اورنہ صرف وہاں کے ٹیلی وژن شوز میں پرفارم کیا بلکہ موسیقار کلیان جی ،آنند جی کی مرتب کردہ موسیقی میں فلم ’ایک سے بڑھ کر ایک‘ کے ٹائٹل سونگ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز بھی کیا۔ اس گانے کو اداکارہ ہیلن پر فلمایا گیا تھا۔ گھروندا کے گیت ’دو دیوانے شہر میں‘ ان کا پہلا مقبول گیت تھا جسے رونا لیلیٰ نے جے دیو کی موسیقی میں فلم" گھروندا" کے لیے گایا تھا۔وہ 1990 میں فلم" اگنی پتھ" اور 1991ء میں فلم" سپنوں کا مندر" کیلئے بھی اپنی آواز میں گیت ریکارڈ کراچکی ہیں۔

اسی دوران بہت مختصر وقت کے لیے فلموں میں کام کرنے والے موسیقار شمبھو سین نے پاکستانی لیجنڈری گلوکار مہدی حسن کی آواز کو فلم ’مرگ ترشنا‘ کے لیے استعمال کیا۔ مہدی حسن ،کسی

بھارتی فلم میں اپنی آواز کا جادو جگانے والے پہلے پاکستانی گلوکار ہیں۔
لکشمی کانت پیارے لال نے فلم ”بوبی “میں ریشماں کا گایا ہوا ایک گیت شامل کیا تھا۔ فلم کے ڈائریکٹر راج کپور اور موسیقار لکشمی کانت پیارے لال اس گیت کے باقاعدہ حقوق حاصل کرنا چاہتے تھے مگر ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔اسی طرح لکشمی کانت پیارے لال نے مہدی حسن کی آواز کو اپنے گیتوں میں استعمال کیا۔ انہوں نے ہی ہندؤں کے ایک روحانی گیت ”میں آتما تو پرماتما“ کو طلعت عزیز اور مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ کیااور اسے 1991ء میں ریلیز ہونے والی مہیش بھٹ کی فلم ’دھن‘ میں شامل کیا۔

لکشمی کانت پیارے لال نے ریشماں کو 1983ء میں اپنی فلم ’ہیرو‘ میں ان کے گیت ’لمبی جدائی‘ سے متعارف کروایا۔ اس کے علاوہ انھوں نے ریشماں کی آواز کو اپنی ایک اور فلم ”ہیر رانجھا‘ ‘میں بھی شامل کیا۔

اس کے بعد ایک اور آواز سامنے آئی۔ یہ آواز برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد پاپ سنگر نازیہ حسن کی تھی۔ 1980ء کی فلم” قربانی“ کے لیے گایا گیا ان کا گیت ”آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے“ آج بھی مقبول ترین گیتوں میں شمار ہوتا ہے۔نازیہ نے اپنے بھائی زوہیب حسن کو ساتھ لیا اور 1981ء میں ان کا مقبول ترین اور فروخت کے ریکارڈ زتوڑ دینے والا میوزک البم ”ڈسکو دیوانے“ریلیز کیا۔

1982ء میں آنے والی فلم ’اسٹار‘ کے گیت بھی انھوں نے ہی گائے تھے۔ ان تمام گیتوں کی موسیقی موسیقار بدو نے مرتب کی تھی۔ ایک اور پاکستانی فنکارہ مسرت کی آواز بھی بھارت پہنچی، جنھوں نے بھارتی گلوکار مہندر کپور کے ساتھ بونی ایم کے ایک غیر فلمی البم کے لیے گیت گانے کا معاہدہ کیا تھا۔

دوسری جانب رونا لیلیٰ نے بپی لہری کے ساتھ ان کے سپر ہٹ البم کے لیے گیت، گانے کے ساتھ ساتھ ان کی فلموں کے لیے بھی کئی گیت گائے۔ نازیہ حسن اور زہیب حسن نے بھی بپی لہری کی فلموں کے لیے اپنی آوار دی، جیسے فلم ’دل والا‘ اور ’میں بلوان‘ کے گیت۔

1980ء میں پاکستانی لیجنڈری فنکار نصرف فتح علی خان نے نصرت علی کے نام سے ایک اور ساتھی فنکار مجاہد علی کے ساتھ یش چوپڑا کی فلم ’ناخدا‘ کے لیے گیت گایا۔ یہ فلم 1981ء میں ریلیز ہوئی۔ یہ گیت انھوں نے اس وقت ریکارڈ کروایا تھا، جب وہ رشی کپور اور نیتو سنگھ کی شادی میں شرکت کے لیے بھارت میں تھے۔

بعد ازاں 1990ء کی دہائی میں قوالی کے انداز میں گائی جانے والی غزلوں کی مقبولیت کے بعد بھارت میں نصرت فتح علی کے نام کے ڈنکے بجنے لگے۔ فلم” بینڈٹ کوئین“،” کچے دھاگے“ ، ”کارتوس“، ”دل لگی“ اور” دھڑکن “کے گیت بے انتہا مقبول ہوئے۔

فلم ”دل لگی“ کی موسیقی آنند ملند اور” دھڑکن“ کی موسیقی ندیم شرون نے مرتب کی تھی۔ فلم” کچے دھاگے“ کے گیتوں نے پاکستان اور بھارت دونوں جگہ خوب دھوم مچائی۔ اس فلم کے گیتوں ’خالی دل نہیں‘ اور ’اوپر خدا آسمان نیچے‘ کے علاوہ خود نصرت فتح علی خان کی بنائی گئی دھن پر گائی جانے والی حمد ’اس شان کرم کا کیا کہنا‘ کو آج بھی ہندی سنیما میں صوفی قوالیوں کی پسندیدگی کی سند سمجھا جاتا ہے۔

1982ء میں سرحد پار کے ایک اور غیر معروف گلوکار سلیم پریم راگی نے لکشمی کانت پیارے لال کی موسیقی میں بننے والی فلم ’جیون دھارا‘ میں اپنی آواز کا جادو جگایا، لیکن اس فنکار کو دوبارہ کسی اورفلم کے لیے گانے کا موقع نہیں مل سکا۔

اس کے بعد جس فنکارہ نے بڑی شہرت حاصل کی، وہ سلمیٰ آغا تھیں۔ 1982ء میں بی آر چوپڑا کی فلم ”نکاح“ میں موسیقار روی کی دھنوں پر انھوں نے گیت گائے۔ مہندر کپور کے ساتھ ان کے گائے ہوئے گیت ”دل کی یہ آرزو تھی کوئی دلربا ملے“، اور ان کے سولو گیت ”دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے“ ، ’فضا بھی ہے جواں جواں‘ فلم کی ریلیز سے پہلے ہی مقبول ہو گئے۔ اس فلم میں انھوں نے گلوکاری کے علاوہ اداکاری بھی کی تھی۔ اس کے بعد بھی انھوں نے بہت سی فلموں میں اپنی آواز اور اپنے حسن، دونوں کا جادو جگایا، تاہم فلم ’قسم پیدا کرنے والے‘کی ان کی آخری فلم تھی جس میں انھوں نے گلوکاری بھی کی اور اداکاری بھی۔

فلم ’نکاح‘ میں پاکستانی غزل گائیک غلام علی نے بھی پہلی مرتبہ سدا بہار غزل ”چپکے چپکے رات دن“ گاکر فلم کو بام عروج پر پہنچا دیا تھا۔ اس کے علاوہ راج کھوسلا کی فلم ’مٹی مانگے خون‘ اورانو ملک کی موسیقی میں مہیش بھٹ کی فلم ’آوارگی‘ میں گیت’ ’چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تارا نظر آیا“ بھی گایا، جو انتہائی مقبول ہوا۔

عدنان سمیع نے 2000ء میں ایگ غیر فلمی گیت ”کبھی تو نظر ملاؤ“ گا کر شہرت حاصل کی۔ 2001ء میں انھوں نے اپنا پہلا فلمی گیت کمپوز کیا۔ یہ گیت اجے دیو گن کی فلم ”یہ راستے ہیں پیار کے“ کے لیے تیار کیا گیا تھا لیکن اس فلم کی موسیقی مقبول نہیں ہوسکی۔

بطور گلوکار ان کی پہلی فلم ’اجنبی‘ تھی جس میں انھوں نے انو ملک کی موسیقی میں گیت ”تو صرف میرا محبوب“ گایا۔ انو ملک کی موسیقی میں انھوں نے ایک اور فلم ”لکی“ کے گیت بھی گائے۔ اس کے علاوہ بھی انھوں نے کئی فلموں کے لیے گیت گائے ۔ ان کے مقبول گیتوں میں فلم ’ساتھیا‘ کا گیت ”اے اڑی اڑی اڑی‘، فلم ’اعتراض کا ’گیلا گیلا گیلا‘ اور فلم ’مائی نیم از خان کا گیت ’نور خدا‘ اتنے مقبول نہیں ہوسکے جتنا کہ فلم” چوری چوری“ کے لیے ان کا گایا ہوا گیت’ ’روٹھے یار نوں منالے“ مقبول ہوا تھا۔

1980ء کی دہائی میں بھارتی فلموں پر اپنے اثرات مرتب کرنے والی ایک اور شخصیت گیت نگار قتیل شفائی کی تھی۔ ان کا پہلا گیت ’الفت کی نئی منزل کو چلا“ 1970ء کی دہائی میں کلیان جی آنند جی کی موسیقی میں ریکارڈ ہوا تھا جو 1994ء میں ریلیز ہو سکا۔ اس کے بعد 1981ء میں آر ڈی برمن کی موسیقی میں فلم ”قدرت “اور 1983ء میں فلم” پینٹر بابو“ کے لیے بھی انھوں نے گیت لکھے۔ لیکن انو ملک کی موسیقی میں بننے اور 1993ء میں ریلیز ہونے والی فلم ”سر“ میں ان کے لکھے گیتوں نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ ان کے علاوہ انھوں نے فلم’ ’پھر تیری کہانی یاد آئی“ ،’ ’ناراض“ اور بہت سی فلموں دوسری فلموں کے لئے بھی گیت لکھے۔

مہیش بھٹ ایسے پروڈوسر ز ہیں جو اپنے کام کے حوالے سے نت نئے تجربات کرتے رہیں ۔ انہی تجربات میں پاکستانی فنکاروں کو بھارتی اسکرین پر پیش کرنے کے کامیاب تجربے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔ انہیں نے ہی قتیل شفائی ، نصرت فتح علی اور غلام علی کو اپنی فلموں میں متعارف کرایا تھا۔ راحت فتح علی خان کوبھی مہیش بھٹ ہی بالی ووڈ اسکرین تک لے کر گئے اور’ ’لگن لاگے تم سے من کی لگن “ جیسا مشہور گانا تیار کرالیا۔

2004ء میں پوجا بھٹ کی فلم ’پاپ‘ کے لیے گائے گئے اس گیت میں ایک صوفی الاپ بھی شامل تھا جسے راحت نے اپنے بھائی فرخ فتح علی خان کے ساتھ گایا تھا۔ علی عظمت نے گیت ’گرج برس‘میں موسیقی خود مرتب کی تھی اور خود ہی اسے گایا تھا۔ ان گیتوں کی کامیابی نے مہیش بھٹ اور ان کے بھائی پروڈیوسر مکیش کو بہت حوصلہ دیا تھا۔ انھوں نے سرحد پار سے مزید فنکاروں کو متعارف کرانے کا سلسلہ جاری رکھا اور موسیقی کی دنیا میں بہترین صلاحیتیں رکھنے والے فنکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔

2005ء میں فلم” زہر “میں پاکستانی گیت ’اگر تم مل جاؤ‘ اور پاپ گروپ جل بینڈ کے گلوکار عاطف اسلم کے گائے ہوئے گیت ’وہ لمحے‘ نے بھارتی موسیقار متھن کو مصروف ترین موسیقار بنا دیا۔ 2005ء میں ایک اور فلم ’کل یگ‘ میں عاطف اسلم کے ایک گیت عادت او رراحت فتح علی کے گیت ’جیا دھڑک دھڑک‘ جس کی موسیقی روحیل حیات اور فیصل رفیع نے ترتیب دی تھی، اورنجم شیراز کے گیت ’یہ پل‘ نے بھی بہت مقبولیت حاصل کی۔ نجم شیراز نے فلم مرڈر اور شپتھ کے لیے بھی گیت گائے تھے۔

جی ہاں، بے شمار اور بھی نام ہیں جو بے بہا صلاحتیوں کے حامل ہیں۔ فن پر عائد بعض پابندیوں کے باوجودعاطف اسلم فلم بس ایک پل میں ’تیرے جیسے گیت‘ ، فلم ریس میں ’پہلی نظر‘، فلم قسمت کنکشن میں ’تیرا ہونے لگا ہوں‘ اور فلم عجب پریم کی غضب کہانی میں ’تو جانے نہ‘ گا کر مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرلیتا ہے۔

دوسری جانب ہمارے ہاں بہت سے باصلاحیت گلوگار بھی موجود ہیں، جیسے شفقت امانت علی، جن کے مقبول گیتوں میں فلم کبھی الوداع نہ کہنے کا ’متوا‘، فلم دور کا ’یہ حوصلہ‘ اور فلم مائی نیم از خان کا’تیرے نینا‘ جیسے گیت شامل ہیں، جبکہ راحت فتح علی خان نے بھی گزشتہ دو برسوں کے دوران دیگر مرد گلوکاروں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہٹ گیت دئیے ہیں۔

XS
SM
MD
LG