رسائی کے لنکس

کشمیر میں گردوارے اور مندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار


مظفر آباد میں قائم ایک مندر
مظفر آباد میں قائم ایک مندر

اکتوبر 2005ء کے تبا ہ کن زلزلے میں پاکستانی کشمیر کے مختلف علاقوں میں جہاں ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے وہیں اسکولوں ، مکانوں اور مساجد کے علاوہ مندر اور گردوارے بھی بری طرح متاثر ہوئے اور بعض زمین بوس بھی ہوگئے جن کو ابھی تک تعمیر نہیں کیا جاسکا ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہندو اور سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی عبادت گاہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد اس علاقے میں آباد سکھ اور ہندو بر داری کے لوگوں کے چلے جانے کے بعد یہاں قائم گردوارے اور مندر ویران ہیں اور ان کی مناسب دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستانی کشمیرکے چھ اضلاع مظفر آباد، نیلم، باغ، کوٹلی ، میرپور اور بھمبر میں سینکڑوں سال پرانے 16مندر اور گردوارے ہیں جن میں سے بیشتر عدم توجہی کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہیں۔

اکتوبر 2005ء کے تبا ہ کن زلزلے میں پاکستانی کشمیر کے مختلف علاقوں میں جہاں ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے وہیں اسکولوں ، مکانوں اور مساجد کے علاوہ مندر اور گردوارے بھی بری طرح متاثر ہوئے اور بعض زمین بوس بھی ہوگئے جن کو ابھی تک تعمیر نہیں کیا جاسکا ہے۔ ان ہی میں سے ایک دارالحکومت مظفرآباد سے50 کلو میٹر دورقصبے گوجربانڈی میں واقع گر دوارہ ہے اور پانچ سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی اس کا ملبہ جوں کا توں پڑا ہوا ہے۔

گوجر بانڈی کے عمررسیدہ عبدالاحدنے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ گردوارہ 1935ء میں اُن کے سامنے تعمیر کیا گیا تھا اور1947ء میں سکھوں کے چلے جانے کے بعد 2005ء میں آنے والے زلزلے سے قبل تک اُنھوں نے اپنے طور پر اس گردوارے کی حفاظت کی۔

مظفرآباد کے رہائشی عبدالاحد
مظفرآباد کے رہائشی عبدالاحد

عبدالاحد نے بتایا کہ تقسیم ہند کے بعد کشمیر پر قبائلی لشکر کشی کی وجہ سے سکھ اور ہندو خاندان یہ علاقہ چھوڑ کر چلے گئے اور اُن کے بقول پاکستانی کشمیر میں رہ جانے والے اکادکا خاندانوں نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔ تاہم اُن کے ہندو اور سکھ رشتہ دارجب ان سے ملنے آتے ہیں تو یہاں موجود عبادت گاہوں کا بھی دورہ کرتے ہیں ۔

تاریخ دان اور مصنف ڈاکٹر صابر آفاقی کا کہنا ہے کہ مظفر آباد میں سکھوں کے ایک گردوارے اور ہندوؤں کے چار مندر زلزلے سے متاثر ہوئے جن کی بحالی کے لیے تا حال کو ئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ بھارتی کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے مظفر آباد آنے والے ہندوؤں اور سکھوں نے متاثرہ عبادت گاہوں کی بحالی کے لیے مقامی حکومت سے رابطہ کیا ہے ۔

پاکستانی کشمیر کے محکمہ آثار قدیمہ کے نائب ناظم پیرزادہ ارشاداحمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کے محکمے نے اس تاریخی ورثے کو معدوم ہونے سے بچانے کے لیے تمام مندروں اور گردواروں کو قومی اثاثہ قرار دے رکھا ہے تاہم ا ن کے بقول اس اثاثے کی بحالی کے لیے تیار کردہ منصوبے پر فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے ابھی تک کام شروع نہیں ہو سکا۔

XS
SM
MD
LG