رسائی کے لنکس

انصار عباسی کی ٹوئٹ پر تبصرے: 'وہ نہیں چاہتے کہ عورت کچھ کرے، ورزش تک نہیں'


انصار عباسی کی ٹوئٹ کے بعد پاکستان میں پیر اور منگل کو ٹوئٹر پر 'انصار عباسی' ٹرینڈ کرتا رہا۔
انصار عباسی کی ٹوئٹ کے بعد پاکستان میں پیر اور منگل کو ٹوئٹر پر 'انصار عباسی' ٹرینڈ کرتا رہا۔

پاکستان کے صحافی انصار عباسی نے پیر کو سرکاری ٹیلی ویژن 'پی ٹی وی' پر ایک خاتون کے ورزش کرنے کی ویڈیو کو ٹوئٹر پر شیئر کیا اور وزیرِ اعظم عمران خان، عاصم سلیم باجوہ اور شبلی فراز سے استفسار کیا کہ 'کیا یہ پی ٹی وی ہے؟' تب سے پاکستانی سوشل میڈیا پر اس سوال پر مسلسل بحث اور تبصرے ہو رہے ہیں۔

انصار عباسی کی ٹوئٹ کے بعد پاکستان میں پیر اور منگل کو ٹوئٹر پر 'انصار عباسی' ٹرینڈ کرتا رہا۔

انصار عباسی کی ٹوئٹ کے بعد بعض صارفین نے اُنہیں تنقید کا نشانہ بنایا جب کہ بعض نے ان کے سوال کو جائز قرار دیا۔

صحافی انصار عباسی کی شیئر کی جانے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خاتون ٹی وی پروگرام کے دوران ورزش کر رہی ہیں اور ایک نوجوان اس ورزش سے متعلق ناظرین کو آگاہ کر رہے ہیں۔

ٹوئٹر صارفین پوچھ رہے ہیں کہ آخر اس ویڈیو میں قابلِ اعتراض بات کیا ہے؟

نجی ٹی وی چینل سے وابستہ اینکر ماریہ میمن نے لکھا کہ "جہاں تک مجھے نظر آ رہا ہے، پی ٹی وی عورتوں کو گھر پر ورزش کے بنیادی قواعد بتا رہا ہے تاکہ وہ اپنی صحت کا خیال رکھ سکیں۔"

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے لکھا کہ "اگر ورزش کا سیشن اور اشتہاری بورڈز آپ کو اشتہا دلا رہے ہیں تو پھر آپ کو نفسیاتی علاج سمیت نصیحت کی ضرورت ہے۔"

اینکر رابعہ انعم کہتی ہیں "جی عمران خان اس ویڈیو میں صرف عورت ورزش کر رہی ہے، مرد نہیں جو کہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ دونوں کو ورزش کرنی چاہیے۔"

سماجی کارکن اور وکیل ایمان مزاری نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ انصار عباسی کی جانب سے ایک عورت کے ورزش کرنے پر اعتراض پاکستانی سماج کی بیماری کو ظاہر کرتا ہے۔

ان کے بقول مقصد تو صاف ہے، عورت کو غائب کر دینا۔ وہ نہیں چاہتے کہ عورت کچھ کرے، کام، پڑھائی، اور ورزش تک نہیں۔

صحافی خاور گھمن نے لکھا کہ ’’بیچارہ پاکستان ٹیلی ویژن۔ پورے کپڑوں والا ارطغرل ڈرامہ دکھائے تو اعتراض۔ ٹریک سوٹ میں ایکسرسائز کرتی خواتین دکھائے تو اعتراض۔"

ان کے بقول صرف ایک ہی حل رہ گیا ہے۔ اس سفید ہاتھی کو بند ہی کر دیں۔ آزادی اظہار رائے کے مطابق انصار عباسی صاحب کا احترام ضروری ہے۔

ایک جانب جہاں انصار عباسی کے سوال پر بعض افراد تنقید کر رہے ہیں وہیں بعض ٹوئٹر صارفین نے انصار عباسی کے سوال سے اتفاق کیا ہے۔

ٹوئٹر صارف محمد احور نے اپنی ٹوئٹ میں #IAgreeWithAnsarAbbasi کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سرکاری ٹی وی پر ایسا نازیبا مواد نہیں دیکھنا چاہتے۔

ایسے ہی ایک اور صارف محمد بلال نے اس مواد کو نامناسب قرار دیتے ہوئے پیمرا سے درخواست کی کہ وہ اس پر ایکشن لے۔

عمار سلطان نامی ٹوئٹر صارف کہتے ہیں کہ اس پوسٹ پر جتنے حضرات نے بات کی سب نے ورزش کو بنیاد بنایا۔ حالاںکہ ورزش کے فوائد کا کوئی ان پڑھ انکار نہ کرے گا۔

ان کے بقول جو بات زیر بحث آنی چاہیے کہ اس ویڈیو میں قباحت کیا ہے؟

منگل کو انصار عباسی نے اپنی ٹوئٹ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا ملک میں فحاشی پھیلانے کا مرتکب ہو رہا ہے۔

ان کے بقول انہوں نے پی ٹی وی کی ایک ویڈیو شیئر کی ہے۔ نجی میڈیا اس کام میں اس سے بھی آگے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے صرف وزیرِ اعظم عمران خان کی توجہ اس جانب دلائی تھی۔

انہوں نے فواد چوہدری کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ آپ کی حکومت ریاست مدینہ کے مطابق پاکستان کی تعمیر نو کا دعویٰ کرتی ہے۔ کیا آپ جس کی حمایت کر رہے ہیں اس کو مذہب یا پاکستان کے آئین کے مطابق پاتے ہیں؟

XS
SM
MD
LG