رسائی کے لنکس

بھارت سے فوجی حملے کا خطرہ بدستور موجود ہے: عمران خان


فائل
فائل

عمران خان نے کہا ہے کہ اُن کے ’نئے پاکستان‘ میں ’’دہشت گردوں کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ پاکستان پہلے ہی ملک میں بھرپور کارروائیوں کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑ چکا ہے‘‘۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ’’بھارت جنگی جنون میں مبتلا ہے۔ جس کے نتیجے میں بھارتی انتخابات سے قبل بھارت کی جانب سے کوئی مزید حملہ خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا‘‘۔

معروف برطانوی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ کو دئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں، اُنہوں نے کہا کہ ’’صورت حال اب بھی تشویشناک ہے اور بھارت مزید کارروائی بھی کر سکتا ہے‘‘۔ اُنہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو جارح قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ ’’وہ دونوں ہمسایہ ملکوں کو مکمل جنگ کے قریب لے آئے تھے‘‘۔

اس سے قبل جنوبی ایشیا کے جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائلوں کے حامل یہ دونوں ہمسایہ ملک احتیاط کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ تاہم، بھارت نے پہل کرتے ہوئے پلوامہ حملے کے جواب میں پاکستان کی سر زمین پر جیش محمد کے مبینہ ٹھکانوں پر بمباری کی۔

اس کے جواب میں، پاکستان نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا اور اس دوران بھارت کا ایک جہاز گراتے ہوئے اُس کے پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔ تاہم، پاکستان کی طرف سے بھارتی پائلٹ کی جلد واپسی کے باعث دونوں ملکوں میں تناؤ کی شدت میں کمی آئی۔

اُس کے بعد سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنی انتخابی مہم میں ایسے بیانات دیتے رہے ہیں جن سے، تجزیہ کاروں کے مطابق، ’’ملک میں جنگی جذبے کو ہوا ملتی رہی‘‘۔ اُنہوں نے ایک ٹویٹ میں یہ بھی کہا کہ اُن کا ’’نیا بھارت اُن لوگوں کو سبق سکھائے گا جو امن کے ماحول کی خرابی کا باعث بن رہے ہیں‘‘۔

بھارت میں میڈیا نے قوم پرستی کے بیانیے کا بھرپور ساتھ دیا، جس کے باعث پاکستان نے بھارت کی حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی پر الزام لگایا کہ وہ بھارت میں ہونے والے آئیندہ عام انتخابات میں کامیابی کیلئے پاکستان۔بھارت کشیدگی کو استعمال کر ر ہی ہے۔

اس انٹرویو میں، عمران خان نے کہا کہ ’’بھارتی عوام کو اس بات کا احساس کرنا چاہئیے کہ یہ سب انتخابات جیتنے کیلئے کیا جا رہا ہے؛ اور ایسا جنوبی ایشیا میں موجود مسائل کو حل کرنے کیلئے ہرگز نہیں کیا جا رہا‘‘۔ اُنہوں نے کہا کہ پلوامہ حملہ مودی کی کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی مبینہ ’’زیادتیوں کا نتیجہ ہے‘‘۔

پلوامہ حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم جیش محمد نے قبول کی تھی۔ اس بارے میں ایک سوال کے جواب میں پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ ’’جیش محمد خود بھارت میں موجود ہے۔ خود کش حملہ کرنے والا 19 سالہ لڑکا بھی کشمیری نژاد بھارتی شہری ہے‘‘۔

عمران خان نے کہا کہ ’’لڑکے کے والد کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج کے مظالم کی وجہ سے وہ شدت پسندی کی طرف مائل ہوا۔ لہذا، یہ بھارتی لڑکا، بھارتی دہشت گرد کارروائی، بھارتی کار اور بھارتی دھماکہ خیز مواد تھا۔ پھر اس کا الزام پاکستان پر کیوں دیا جاتا ہے؟‘‘۔

اُنہوں نے اصرار کیا کہ پاکستان کے دہشت گرد تنظیم جیش محمد سے ’’کوئی رابطے نہیں‘‘ ہیں، جس نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے شہر پلوامہ میں ایک خود کش حملے میں بھارت کے 40 کے لگ بھگ فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ اُن کے ’نئے پاکستان‘ میں ’’دہشت گردوں کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ پاکستان پہلے ہی ملک میں بھرپور کارروائیوں کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑ چکا ہے‘‘۔

تاہم، بوسٹن یونی ورسٹی کے پروفیسر اور معروف تجزیہ کار ڈاکٹر عادل نجم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’چاہے پاکستان نے ملک میں ریاستی اور غیر ریاستی دہشت گرد عناصر کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی ہو اور اُن کا قریب قریب صفایا بھی کر دیا ہو، دنیا اس بارے میں پاکستان کے نقطہٴ نظر کو تسلیم نہیں کرتی اور اس سلسلے میں پاکستانی حکومت اور فوج کیلئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے‘‘۔

بھارت کے ساتھ کشیدگی کے علاوہ پاکستان کو کمزور معیشت اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے بلیک لسٹ کئے جانے کا خطرہ درپیش ہے، جس کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان نے اگرچہ کچھ اچھے اقدامات کئے ہیں۔ تاہم، وہ دہشت گرد گروپوں کی مالی اعانت کو مکمل طور پر روکنے میں ناکام رہا ہے‘‘۔

مذکورہ انٹرویو میں عمران خان نے پاکستان۔بھارت کشیدگی کے علاوہ ملک کی معاشی صورت حال پر بھی تفصیل سے بات کی۔

پاکستان کی موجودہ حکومت کو کمزور معاشی صورت حال کا سامنا رہا ہے۔ اگرچہ سعودی عرب، متحدہ امارات اور چین کی طرف سے پاکستان کو خطیر مالی تعاون فراہم کیا گیا ہے۔ پاکستان بین الاقوامی مالیاتی ایجنسی آئی ایم ایف کے ساتھ ایک بیل آؤٹ پیکیج کیلئے بات چیت کر رہا ہے اور آئی ایم ایف کا ایک وفد اس سلسلے میں پاکستان پہنچ چکا ہے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ عنقریب ہونے توقع ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان آخری مرتبہ آئی ایم ایف سے رجوع کر رہا ہے، جس کے بعد ایسا کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی‘‘۔ معاشی ماہرین نے اس سلسلے میں ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’معاشی پیکج کیلئے آئی ایم ایف کی شرائط اس قدر کڑی ہوں گی کہ پاکستان اُنہیں برداشت نہیں کر پائے گا‘‘۔

تاہم، فیڈریشن آف پاکستان اکنامک کونسل کے چیف اکانومسٹ ڈاکٹر ایوب مہر نے وائس آف امریکہ کے انجم ہیرلڈ گل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کے خیال میں ’’آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنا پاکستان کیلئے مشکل نہیں ہو گا، کیونکہ وہ بیشتر شرائط پر پہلے ہی عمل کر چکا ہے‘‘۔

یاد رہے کہ پاکستان پہلے ہی بجلی، تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر چکا ہے اور ملکی کرنسی کی شرح تبادلہ بھی بتدریج کم کر دی گئی ہے۔

تاہم، ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف کا پاکستان سے مطالبہ ہو گا کہ روپے کو آزاد چھوڑ دیا جائے اور اسے اپنی قدر خود متعین کرنے دی جائے۔ لیکن، معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ ایسا کرنے سے پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی واقع ہو گی اور یوں ملک کے ذمے بیرونی قرضوں کے بوجھ میں خطیر اضافہ ہو جائے گا۔

عمران خان نے اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا کہ چین کی طرف سے پاکستان۔چین راہداری منصوبے کے حوالے سے 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے تناظر میں ’’پاکستان چین کی ایک کلائینٹ ریاست بن کر رہ گیا ہے اور چینی قرضوں کے بوجھ تلے دھنستا چلا جا رہا ہے‘‘۔

عمران خان نے چین کے صوبہٴ سنکیانگ میں لگ بھگ 10 لاکھ چینی مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں رکھے جانے سے متعلق بھی مکمل لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُنہیں اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG