رسائی کے لنکس

ووٹ کے حق کے لیے خیبر پختونخوا کے خواجہ سراؤں کی ہائی کورٹ میں پٹیشن


ٹرانس جینڈر ایکٹیوسٹ پٹیشن کے لیے پشاور ہائی کورٹ کے باہر کھڑے ہیں۔ 13 فروری 2018
ٹرانس جینڈر ایکٹیوسٹ پٹیشن کے لیے پشاور ہائی کورٹ کے باہر کھڑے ہیں۔ 13 فروری 2018

خیبر پختون خوا اسمبلی نے خواجہ سراؤں کی سیاسی شمولیت کے حوالے سے ایک متفقہ قراداد بھی منظور کی تھی، لیکن پھر بھی اس سلسلے میں ابھی تک کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

خیبر پختون خوا کے خواجہ سراؤں نے اپنے ووٹ کے حق کے قانونی تحفظ کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت الیکشن کمشن آف پاکستان کو جوابدہ بناتے ہوئے ایک رٹ پٹیشن دائر کی ہے جس میں چیف الیکشن کمشنر اسلام آباد اور صوبائی الیکشن کمشنر خیبر پختون خوا کو جوابدہ بنایا گیا ہے۔

رٹ پٹیشن میں ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن کمشن آف پاکستان کو پابند بنایا جائے کہ وہ 2018 کے انتخابات کو خواجہ سراؤں کے لیے بطور ووٹر اور امیدوار دوستانہ بنایا جائے اور اس حوالے سے واضح حکمت عملی ترتیب دی جائے۔

رٹ پٹیشن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ انتخابات کے لیے امیدواروں کے نامزدگی فارم میں مردوں اور عورتوں کے ساتھ ساتھ خواجہ سراؤں کا کالم بھی بنایا جا ئے تاکہ وہ اپنی ٖصنفی پہچان کے ساتھ الیکشن میں حصہ لینے کے قابل ہو سکیں۔

ٹرانس ایکشن کی صوبائی صدر فرزانه جان نے کیا کہ نادرا خواجہ سراؤں کو x) ایکس) نشان والے شناختی کارڈ جاری کر رہا ہے جس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ الیکشن کے دن خواجہ سرا ووٹ ڈالنے کے لیے مردوں اور عورتوں میں سے کون سے پولنگ اسٹیشن پر جائیں گے اور نہ ہی اس حوالے سے الیکشن کمشن کے پاس کوئی واضح حکمت عملی موجود ہے۔

خیبر پختون خوا اسمبلی نے خواجہ سراؤں کی سیاسی شمولیت کے حوالے سے ایک متفقہ قراداد بھی منظور کی تھی، لیکن پھر بھی اس سلسلے میں ابھی تک کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

رٹ پٹیشن میں ہائی کورٹ سے یہ استدعا بھی کی گئی ہے کہ خواجہ سراؤں کو ترجیحی بنیادوں پر ووٹ ڈالے کا حق دیا جائے اور انہیں قطاروں میں کھڑا نہ کیا جائے تاکہ انہیں تضحیک اور نفرت آ میز رویے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

الیکشن کمشن آف پاکستان اپنے تمام متعلقہ عملہ کی اس حوالے سے خصوصي تربیت بھی کرے اور یہ یقینی بنائے کہ خواجہ سراؤں کے ووٹوں کو ترجیحی بنیاد پر رجسٹرڈ کیا جائے۔

فرزانه جان نے مزید کہا کہ خواجہ سرا پاکستان کے مساوی شہری ہیں۔ اور آئین پاکستان ان کے بنیادی حقوق کا ضامن ہے۔ لہٰذا خواجہ سراؤں کے بطور ووٹر اور امیدوار انتخابي حق کو کسی صورت محروم نہیں کیا جا سکتا۔

بلیووینز کے کوارڈینٹر قمر نسیم کہا کہ’’ اگرچہ خواجہ سراؤں کے حقوق کو میڈیا اور سرکاری سطح پر پذیرائی حاصل ہے لیکن وہ آج بھی عوامی اسمبلیوں میں بطور قانون ساز نمائندگی کے لیے موجود نہیں ہیں۔ اگر انہیں موقع دیا جائے تو وہ نہایت احسن طریقے سے قومی اور سیاسی دھارے میں شامل ہو سکتے ہیں۔

ٹرانس ایکشن کی جنرل سیکرٹری آرزو خان نے کہا کہ الیکشن کمشن خواجہ سراؤں کی سیاسی شمولیت اور ووٹوں کے تحفظ کے حوالے سے کوئی پالیسی سامنے لانے میں اب تک ناکام رہا ہے اس لیے ہمیں عدالت کا رُخ کرنا پڑا ہے۔

پختون خوا سول سوسائٹی نیٹ ورک کے کوارڈینٹر تیمور کمال نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کسی بھی ادارے کی جانب سے عملی اقدامات نہیں کیے جارہے، اس لیے انہیں اسمبلیوں تک رسائی دی جائے تاکہ وہ اپنے حقوق کے حوالے سے عملی اقدامات کیے جائیں۔

رٹ پٹیشن داخل کرنے والے وکیل گل رحمان مہمند نے اس موقع پر کہا کہ ’’ ووٹ ڈالنا اور انتخابات میں حصہ لینا بلا تفریق رنگ مذہب، جنس، صنف و نسل تمام پاکستانیوں کا یکساں حق ہے ۔ خواجہ سرا ء پاکستان کے برابر کے شہری ہیں انہیں اس قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ۔انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا ان کے موکلین کو عدالت سے قانون کے مطابق انصاف ملے گا۔

XS
SM
MD
LG