رسائی کے لنکس

خواب جنہیں پر نہ لگ سکے


پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر پاکپتن کے قریب ایک گاؤں میں محمد فیاض نے گزشتہ ہفتے جب اپنے بنائے ہوئے جہاز کو آزمائشی پرواز کے لئے گھر سے باہر نکالا تو اس کے بچوں سمیت گاؤں کے سینکڑوں متجسس لوگ اسے دیکھنے کے لئے اکٹھے ہوگئے۔ وہ اسےگاؤں کے باہر اس سڑک تک لایا جہاں بجلی کی تاریں اور کھمبے نہیں تھے۔

اور اس سے پہلے کہ وہ اڑان بھرتا پولیس وہاں پہنچ گئی اور جہاز زمین پر ہی رہا۔

محمد فیاض کو بچپن ہی سے جہاز اڑانے کا شوق تھا اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ائر فورس میں جانا چاہتا تھا۔ خاندان کے مسائل آڑے آئے اور وہ میٹرک بھی پاس نہ کر سکا۔ مگر نہ تو اس کی ہوائی جہازوں میں دلچسپی اور لگن کم ہوئی اور نہ ہی ہوائی جہاز اڑانے کا خواب۔ اور 30 سال کی عمر میں اس نے ایک ہوائی جہاز بنا ڈالا۔

وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو کے دوران فیاض نے بتایا کہ ’’ابھی میں نے جہاز کے انجن کو سٹارٹ کیا ہی تھا کہ مقامی پولیس نےگرفتار کر لیا اور میرے جہاز کو قبضے میں لے کر علاقے کے رنگ شاہ پولیس سٹیشن لے جا کر کھڑا کر دیا۔‘‘

پولیس کا کہنا تھا کہ فیاض نے نہ تو سول ایوی ایشن اتھارٹی سے اجازت لی اور وہ نہ صرف اپنی زندگی بلکہ دوسروں کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال رہا تھا۔ اس لئے اسے حراست میں لیا گیا۔

فیاض کا کہنا ہے کہ بچپن میں اس کے تمام کھلونے جہاز ہی ہوتے تھے۔ جہازوں کے بارے میں اتنا شوق تھا کہ وہ ’نیشنل جیوگرافک‘ کے پروگرام ’ائر کریش انویسٹی گیشن‘ دیکھا کرتا تھا۔

اُنھوں نے بتایا کہ ’’لاہور میں میں نے ایک فوکر جہاز کو قریب سے دیکھا یا پھر ائر فورس کا وہ جنگی جہاز جسے ایم ایم عالم استعمال کرتے تھے اسے دیکھا۔‘‘

چند برس پہلے انہوں نے اپنا ذاتی جہاز بنانےکی ٹھانی، جس کے لئے معلومات انٹرنیٹ سے حاصل کی اور پھر ڈیزائن پر کام شروع کر دیا۔

ساتھ ساتھ فیاض کو اپنی گھریلو ذمہ داریوں کا بھی احساس تھا، جس کے لئے وہ دن میں ریڑھی لگاتا اور رات میں سیکورٹی گارڈ کے طور پر کام کرتا۔ اور جو تھوڑا بہت وقت بچتا وہ اپنے گھر میں جہاز کے پروجیکٹ پر لگا دیتا۔ پیسوں کی ضرورت پڑی تو زمین بیچ ڈالی اور بینک سے قرض بھی لے لیا۔
اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنے گھر ہی میں عام سے اوزاروں اور مشینوں کو استعمال کرتے ہوئے جہاز کا ڈھانچہ تیار کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ’’میں نے عام استعمال کا پائپ لے کر جس سے چارپائیاں بھی بناتے ہیں، اس کا فریم بنایا۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ ’’پچھلے سال میں نے ایک تجرباتی پرواز کی تھی اور کئی فٹ تک جہاز ہوا میں بلند ہوا تھا مگر وہ انجن مناسب نہیں تھا۔ تو پھر میں اس کی جگہ روڈ کاٹنے والی مشین کا طاقتور انجن نصب کیا ہے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں چار بچوں کے والد فیاض کا کہنا ہے کہ ہوائی جہاز کو کسی حادثے کی صورت میں ان کی زندگی کو خطرہ تو تھا۔ وہ کہتا ہے ’’میری جان کو خطرہ تو مجھے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے بھی ہوتا ہے، مگر زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
انہوں نے بتایا کہ جب وہ گھر میں جہاز پر کام کرتے ہیں تو ان کے بیٹے ان کے کام میں بہت دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اچھی تعلیم حاصل کریں۔

بقول ان کے، ’’مجھے اس بات کا بہت احساس رہتا ہے کہ اگر میں تعلیم یافتہ ہوتا تو شائد میں بہت سے کام زیادہ بہتر کر سکتا۔‘‘

لیکن، ان کے کام سے لگتا ہے کہ انہوں نے اس کمی کو اپنے شوق اور لگن میں آڑے نہیں آنےدیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اب وہ ہوا بازی سے متعلق تمام ضوابط مکمل کرنے کو تیار ہیں۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کے حکام نےپولیس سے فیاض کا ہوائی جہاز واپس دلوا دیا ہے اور ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ وہ طیارہ بنانے والے نوجوان کے جذبے اور مہارت کی قدر کرتے ہیں؛ اور ادارے کی ایک ٹیکنیکل ٹیم چھوٹے طیارے کا تفصیلی معائنہ کرکے اسے اُڑانے کی اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرے گی۔

فیاض کہتے ہیں کہ آزمائشی پرواز سے پہلے انہوں نے مقامی پولیس اور علاقے میں انٹیلی جنس بیورو کے اہلکاروں کو اطلاع دی تھی۔ تاہم، انہوں نے ان کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
یقین تو کسی کو بھی نہیں آتا کہ پنجاب کے ایک گاؤں میں کسانوں کا ایک کم پڑھا لکھا بیٹا ہوائی جہاز بنا سکتا ہے۔ لیکن فیاض نے اپنے خوابوں کو پر لگا کر دکھا ہی دیا۔

XS
SM
MD
LG